بلوغت مبارک ہو!


آنا ً فاناً تیز و تند ہوائے بلا کی طرح سب کو بہا کر لے جانے والے اقدامات، خیالات، محرکات اور حرکات نے قوم کو پریشان کر دیا تھا۔ بندوبست سیاست و ریاست و حکومت ہچکولے لینے لگا تھا۔ یہ واقعات ہیں اپریل 2022 کے۔ اور اس سے ذرا پہلے گزشتہ ماہ میں اٹھنے والے طوفان نے جہاں کشتی بانوں کو سوچنے سمجھنے کے مواقع فراہم کیے تھے لیکن اس بلائے ناگہانی کو روکنے کے لئے کھیسے میں کوئی عملی اقدامات تو تھے نہیں۔ ایک دو تقریروں کے علاوہ پلے تھا کیا۔

عمل کم اور عملیات زیادہ۔ ایسے میں کاروبار حکومت کیسے رواں ہوتا۔ کھوکھلے نعرے، جذباتی تقریریں، جلسے کی بتیاں، سٹیج کی کرسیاں، بلند و بالا اسکرینیں او ر ڈھولک کی تھاپ تو کاروبار سلطنت چلانے کے لئے آلات ضروریہ نہیں ہیں۔ اس کے لئے دورس نگاہ، عملی اقدامات، حالات واقعات پر نظر، عالمگیریت کے دور میں جینے کے گر، صبر، برداشت، دیانت داری، زبان پر کنٹرول جیسے کئی ایک اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

کپتان اور اس کی ٹیم بلائے ناگہانی کو کھوکھلے دعاوی، جلسے کے نعروں، ہٹ دھرمی، بے سرو پا آراء و تجاویز سے ہی ٹالنے میں مگن رہی۔ رائے شماری کا دن آن پہنچا تو صاحب نشست کا جاہ و جلال بھڑک اٹھا۔ یک جنبش قلم بلکہ زبان سب کچھ رد کر دیا۔ اس پر ایوان عدل حرکت میں آیا۔ سب کو کٹہرے میں بلایا۔ صرف چار دن میں حکم سنایا۔ ایوان عدل کے مقیم کا اقبال بلند ہو۔ سسٹم بچا لیا۔ دستور کے ساتھ کیے جانے والے کھلواڑ کے آگے صاحب بہادر سد اسکندری بن گئے۔

اپنے آپ کو آئین و دستور سے بالا سمجھنے والوں کو اجلاس بلانا پڑا۔ لیکن صرف کارروائی کی خاطر کارروائی کی جاتی رہی۔ دن کو رات اور رات کو اگلے دن میں بدلنے کی تدبیریں سوچی جانے لگیں۔ ایوان عدل پھر حرکت میں آیا۔ آدھی رات کو دروازے کھل گئے۔ یہ دیکھتے ہیں آئین شکنوں کے پتے پانی ہو گئے۔ پھوں پھاں کرتے جغادری آنا ً فاناً زمین بوس ہو گئے۔

درویش ایوان عدل کی یہ طاقت دیکھ کر انگشت بدنداں ہے۔ اے کاش یہ رعب ہر کیس میں مجرم کو لاحق ہو جائے۔ کاش یہ گارنٹی ہر مظلوم کو مل جائے کہ اگر آدھی رات کو بھی ایوان عدل کی زنجیر پر ہاتھ رکھوں گا تو ہاتھ کاٹ نہیں دیا جائے گا بلکہ شنوائی ہو گئی۔ کاش مقتدر اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں کے دلوں میں بھی ایوان عدل کا یہ رعب گھر کر جائے۔ اور وہ کسی مظلوم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے، کسی گھر کی چادر اور چاردیواری پامال کرتے ہوئے، کسی اندھے قتل میں ملوث ہونے سے پہلے، کسی کے عقیدے سے کھلواڑ کرنے سے پہلے، کسی مسجد کو کسی عبادت گاہ کو مسمار کرنے سے پہلے، کسی قبرستان میں جا کر کتبے توڑنے اور قبروں کی بے حرمتی کرنے سے پہلے، کسی مجرم کی طرف سے کی گئی ”خدمت“ کے بدلے اسے ریلیف دینے اور مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے پہلے، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو تحفظ دینے سے پہلے، ایوان عدل کی چستی اور فوری حرکت میں آنے کی ہلکے سے خوف کی لہر ان کے جسموں سے گزر جائے تو جس طرح آئین شکنوں کی ٹانگیں کانپ گئیں اور پتے پانی ہو گئے اس طرح وہ بھی ایک لمحے کے لئے ٹھہر جائیں تو بہت سارے جرم سرزد ہی نہ ہوں۔ اے کاش اس مملکت خداداد میں وہ لمحہ بھی آ جائے کہ جب انصاف ہر کس و ناکس کے لئے ارزاں ہو جائے۔ بہر حال فی الوقت قوم کو ایوان عدل کی بلوغت مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments