کیا فوج اب واقعی نیوٹرل ہی رہے گی؟


سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس انٹرویو کے ایک ہی دن بعد کہ تحریک انصاف کی حکومت اسٹبلشمنٹ سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے ختم ہوئی تھی، پارٹی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’پاک فوج، عمران خان سے زیادہ ضروری ہے‘ ۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے حامیوں سے ڈائیلاگ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ پاک فوج کے خلاف بات نہ کی جائے کیوں کہ اگر فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جاتے۔ تحریک انصاف کے موقف میں یہ تبدیلی آرمی چیف کے اس بیان کے بعد دیکھنے میں آئی ہے کہ عوام اور فوج میں فاصلہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سابق وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات کے بیانات سے ایک بار پھر یہ مباحثہ اہم ہو جائے گا کہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کیا کردار ہے اور کیا اب وقت آ گیا ہے کہ اسے ختم کیا جائے تاکہ ملک میں جمہوری عمل غیر منتخب اداروں کی مداخلت کے بغیر کام کرتا رہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کے دوران یقین دلایا تھا کہ ’فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اسے ان مباحث میں نہ دھکیلا جائے‘ ۔ دو روز قبل لاہور گیریزن میں سابقہ فوجی افسروں کے اجتماع سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بات چیت کے بارے میں متعدد افواہ نما خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ اس بارے میں آئی ایس پی آر نے کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا ہے، اس لئے ان خبروں کی صداقت کو جانچنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم نہ تو اس ملاقات کی تردید کی گئی ہے اور نہ ہی اس میں ہونے والی باتوں کے بارے میں قیاس آرائیوں کو مسترد کیا گیا ہے۔ اس لئے نہایت احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف نے اس موقع پر ملک کی سیاسی صورت حال، تحریک عدم اعتماد، فوج کے کردار اور سابقہ حکومت کو اقتدار دلوانے اور اس سے سرزد ہونے والی متعدد معاشی و سفارتی غلطیوں کے بارے میں بات کر کے کم از کم فوجی حلقوں کو یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی تھی کہ پاک فوج کی قیادت کو عمران خان سے کوئی ذاتی کدورت نہیں ہے۔ اسی لئے ان سے منسوب یہ بیان بہت شدت سے عام ہوا ہے کہ ’اگر تحریک انصاف انتخاب جیت کر دوبارہ حکومت بناتی ہے تو وہ اس کا خیر مقدم کریں گے‘ ۔

آئی ایس پی آر کے اعلان کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر میں اپنی توسیعی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’نہ تو جنرل باجوہ توسیع مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی ایسی کسی پیش کش کو قبول کریں گے‘ ۔ اس لئے پورے یقین سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں انتخابات کے ذریعے اگر نئی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے تو شاید جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت فوج کے سربراہ نہیں ہوں گے۔ سوشل میڈیا کے متحرک عناصر پہلے ہی انہیں پانچ وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے والا آرمی چیف قرار دے کر صورت حال کا تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر لاہور گیریزن میں جنرل باجوہ کے اس بیان کو جانچا جائے کہ فوجی قیادت کو منتخب ہونے والی کسی بھی پارٹی کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا تو اس کا مخاطب لامحالہ عمران خان ہی ہیں اور انہوں نے یہ بات صرف اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ وہ پوری فوجی قیادت کی جانب سے یہ اعلان کر رہے تھے۔ ان میں مستقبل میں فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل بھی شامل ہیں۔

واقعات کے اس دلچسپ تواتر پر گفتگو میں توقف کر کے اگر ایک لمحہ کے لئے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششوں، منصوبہ بندی، اتحاد و اتفاق رائے اور اس کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں دراڑیں پڑنے کے معاملات پر غور کر لیا جائے تو حالات کی نئی تصویر کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر جو اس وقت اقتدار سنبھال چکے ہیں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج نے اب نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ تحریک انصاف کی حکومت کو بچانے کی کوششوں میں حصہ دار نہیں ہوگی۔ اسی صورت حال پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ہی عمران خان نے اپنا یہ مشہور بیان دیا تھا کہ ’نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ نیکی اور بدی کی لڑائی میں آپ کو ایک کا ساتھ دینا پڑتا ہے‘ ۔ ظاہر ہے کہ وہ اس بیان میں خود کو نیکی اور اپوزیشن کو بدی سے تشبیہ دے رہے تھے۔ اس معاملے میں چونکہ فوج نے نیوٹرل رہنے کا پیغام دیا تھا، اس لئے جانور والی پھبتی فوجی قیادت ہی کے لئے استعمال ہوئی تھی۔

یہاں یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ فروری کے شروع میں اپوزیشن پارٹیوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) اور چند دوسری جماعتوں پر مشتمل اتحاد لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کر رہا تھا جسے 23 مارچ کو شروع ہونا تھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ 27 فروری کو کراچی سے شروع ہوا اور 8 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ میں اختتام پذیر ہو گیا۔ نہ جانے اس دوران کون سی سیاسی ایمرجنسی محسوس کی گئی کہ یک بیک آصف علی زرداری تحریک عدم اعتماد پر اتفاق رائے کے لئے شہباز شریف سمیت اہم لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے لگے اور کسی بھی طرح عمران خان کو وزارت عظمی سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔

یہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار کا آخری سال تھا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عمران خان پر مہنگائی اور ابتر معاشی حالت کی وجہ سے شدید دباؤ ہے اور بجٹ پیش کرنے کے بعد اس دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ ان حالات میں انتخابات کا اعلان ہونا تھا اور 2023 کے وسط تک انتخابات کا انعقاد ضروری تھا۔ اس سے پہلے عمران خان کو اقتدار عبوری حکومت کے سپرد بھی کرنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد نہ آتی تو ان کے پاس حکومت کا بمشکل ایک سال باقی تھا۔ ان کے طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس ایک سال میں بھی کوئی ایسا معجزہ انجام نہیں دے سکتے تھے کہ افراط زر اور بیروز گاری سے عاجز آئے ہوئے لوگ انہیں دوبارہ منتخب کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔

موجودہ حکومت اور مارچ کے دوران ’اتحاد‘ قائم کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی احساس ہو گا کہ سیاسی طور سے عمران خان کا حکومت میں رہنا ان کے لئے سود مند ہوتا لیکن اس کے باوجود محض فوج کے ’نیوٹرل‘ ہونے کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا کوئی ایسا مقصد بھی ضرور ہو گا جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ اس وجہ کے بارے میں محض قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ فوج نے دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے عاجز آ کر ہائبرڈ نظام یا باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت تحریک انصاف کی حمایت کرنے اور عمران خان کو وزیراعظم بننے میں سہولت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا اعتراف مبینہ طور سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی لاہور گیریزن میں ہونے والی گفتگو میں بھی کیا گیا ہے۔ اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ فوج کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کو مزید برداشت کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ اس موقع پر عمران دشمنی میں اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کا ہاتھ بٹانا ضروری سمجھا۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں رہنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ’امریکی سازش‘ قرار دے کر اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس لئے فواد چوہدری نے اسٹبلشمنٹ سے اختلافات والا انٹرویو دیتے ہوئے اس اصطلاح میں فوج کے علاوہ سپریم کورٹ کو بھی شامل کیا ہے۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد عمران خان بہت پرجوش تھے اور ان کے غم و غصہ کا اظہار ان کی باتوں اور تقریروں سے بھی ہو رہا تھا۔ اس ماحول میں تحریک انصاف نے شدت سے فوج اور سپریم کورٹ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا۔ عمران خان کے جلسوں میں فوج اور ججوں کے خلاف نعرے بھی سننے میں آئے اور بینر بھی دیکھے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی فوج کو عمران حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ لیکن اب فواد چوہدری اور عمران خان کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ تحریک انصاف ’ڈیمیج کنٹرول‘ کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتی ہے۔

اسی لئے اب سابق وزیر اطلاعات تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کی وجوہات میں فوج اور عدلیہ سے دوری کو اہم ترین وجہ قرار دے رہے ہیں۔ اور عمران خان اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ پاکستانی فوج، عمران خان سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ بلکہ اسی مکالمہ میں انہوں نے اس نکتہ پر زور دیا ہے کہ وہ تو فوج کی سربلندی اور سرخروئی کے لئے کھڑے ہیں لیکن شہباز شریف، آصف زرداری اور نواز شریف درحقیقت فوج کو کمزور کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے میمو گیٹ اور ڈان لیکس کا حوالہ دیا اور ماضی کے ان دونوں اسکینڈلز کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے فوج کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج شروع کرنے کے چند ہی روز بعد ایسی کون سی کایا پلٹ ہو گئی ہے کہ نیوٹرل کو جانور قرار دینے والا عمران خان اب فوج کو خود اپنی ذات سے اہم قرار دے رہا ہے۔ اس معاملہ میں زیادہ گہرائی میں جائے بغیر بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عمران خان کا یہ تبدیل شدہ رویہ دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ پاکستان میں فوج کی مدد و مرضی کے بغیر اقتدار کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔ شاید اسی اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مارچ کے دوران مستعدی سے اینٹی عمران محاذ بنانا ضروری سمجھا تھا۔ جو نواز شریف نئے انتخابات کو ہی ’ووٹ کو عزت دو‘ کے اصول کی کامیابی سمجھتے رہے تھے، وہ بھی تحریک عدم اعتماد لانے اور شہباز شریف کی قیادت میں نامکمل اور لولی لنگڑی حکومت لینے پر راضی ہو گئے۔

حالات کی یہ تصویر ملک میں جمہوری ارتقا، عوام کے حق انتخاب یا پارلیمنٹ کو طاقت کا منبع و مرکز بنانے کے کی جد و جہد کے لئے مایوس کن ہے۔ فوج یا اسٹبلشمنٹ کے ’ڈسے‘ ہوئے سارے سیاست دان میر تقی میر کی زبان میں ’اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے‘ پر مطمئن و مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں کون ہو گا جو فوج کی سیاسی مہم جوئی کے راستے کی دیوار بنے گا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments