سینٹ یا سوالات کا مقتل


توشہ خانہ ہی پہ کیا موقوف، خان صاحب کی ”ریاست مدینہ“ کی شفافیت اور جوابدہی کا یہ عالم تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کے سوالات بھی صحرا کی گونج بن کر رہ جاتے تھے۔ میں نے ایک سال کے دوران جو کچھ سینٹ میں دیکھا، وہ ”ریاست مدینہ“ کی روح کے منافی ایسی بے ننگ و نام روش تھی جس کے لئے مجھے اردو لغت میں کوئی مناسب لفظ نہیں مل رہا۔

چند ہی دن پہلے سینٹ نے اپنی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021 ؁ سے مارچ 2022 ؁ تک کے پارلیمانی سال میں حکومتی اداروں کی کارکردگی اور متفرق معلومات کے بارے میں 1579 سوالات پوچھے گئے۔ سوالات تحریری طور پر سینٹ سیکریٹیریٹ میں جمع کرائے جاتے ہیں جہاں سے یہ متعلقہ سرکاری محکموں اور اداروں کو تحریری جوابات کے لئے بھیج دیے جاتے ہیں۔ عموماً اس کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے۔ قطرے کو گہر ہونے تک کیسے کیسے طوفانوں سے گزرنا پڑتا تھا، اس کا پارلیمنٹ سے باہر بیٹھا کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کچھ سوالات (بلکہ بیشتر) سینٹ سیکریٹیریٹ کے چھاجوں اور چھلنیوں کی نذر ہو جاتے تھے۔ کچھ منہ زور محکموں اور اداروں کی فائلوں میں پڑے رہ جاتے۔ کچھ آدھے ادھورے، کچے پکے جوابات ایوان میں پہنچتے تو ہر ضمنی سوال پر کہا جاتا کہ اس کے لئے نئے نوٹس کی ضرورت ہے۔

سینٹ سیکریٹیریٹ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف سینیٹرز کی طرف سے پوچھے گئے 1579 سوالات میں سے صرف 409 ( 25.90 فیصد) کے جوابات دیے گئے۔ گویا تقریباً تین چوتھائی ( 74.10 فی صد) سوالات، ”ریاست مدینہ“ کی ”شفافیت“ اور ”احساس جوابدہی“ کی نذر ہو گئے۔ مت سوچئیے کہ یہ قومی سلامتی یا حساس اداروں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات ہوں گے۔ یہ عام نوعیت کی معلومات سے تعلق رکھنے والے انتہائی بے ضرر سوالات تھے۔

چند مثالوں پر نظر ڈالئے۔
میں نے 23 جون 2021 کو سینٹ سیکریٹیریٹ میں ایک سادہ و معصوم سا سوال جمع کرایا۔

”کیا وزیر انچارج کابینہ ڈویژن اس معزز ایوان کو بتائیں گے کہ یکم ستمبر 2018 ؁ سے 30 مئی 2021 ؁ تک کے عرصے میں کتنی، کون کون سی (Make) اور پاور (Power) کی گاڑیاں خریدی گئی ہیں اور ان پر کل کتنی رقم خرچ آئی ہے؟“

تقریباً ایک ماہ بعد مجھے سینٹ سیکریٹیریٹ سے ایک خط موصول ہوا۔ اس خط کے ذریعے مجھے آگاہ کیا گیا کہ ”سینٹ کے رولز آف پروسیجر اور کنڈکٹ، مجریہ 2012 کی شق 54 کے مطابق جناب چیئرمین سینٹ نے یہ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی۔“ اس خط کے ساتھ ہی میرا جمع کرایا گیا پرچہ سوال بھی، قرطاس بے توقیر کی طرح منسلک تھا۔ میں نے اگلے دن، چیئرمین صادق سنجرانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔ انہیں اپنا سوال دکھایا اور پوچھا۔ ”اس میں کوئی قابل اعتراض بات ہے؟“ انہوں نے غور سے سوال پڑھا اور بولے ”ہرگز نہیں“ ، تب میں نے انہیں سیکریٹیریٹ کی طرف سے بھیجا گیا مراسلہ دکھایا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ ”سوالات کے بارے میں اختیارات ڈپٹی چیئرمین جناب مرزا آفریدی کو تفویض کر دیے گئے ہیں۔ سو آپ ان سے مل لیں۔“ میں وہاں سے اٹھ کر ڈپٹی چیئرمین کے چیمبر میں آ گیا۔

انہوں نے میرے سوال پر ایک نظر ڈالی۔ پھر سیکریٹیریٹ کی طرف سے بھیجا گیا مراسلہ پڑھا۔ جواب دینے کے بجائے مجھے سے مخاطب ہوئے۔ ”جی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟“ اپنے فشار خوں اور اضطراب پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا کہ ”مرزا صاحب! میں نے کوئی فوجی جیپوں، ٹینکوں یا جنگی طیاروں کے بارے میں نہیں، حکومتی عہدیداروں اور اہلکاروں کے استعمال میں آنے والی عام سول گاڑیوں کے بارے میں پوچھا ہے۔ اس پر رول 54 کا اطلاق کیسے ہو گیا؟ اس حکومت نے تو نواز شریف دور میں زیر استعمال گاڑیوں کی باقاعدہ نمائش لگا دی تھی اور ہم اتنا بھی نہیں پوچھ سکتے کہ انہوں نے کتنی گاڑیاں خریدی ہیں؟“ ڈپٹی چیئرمین نے جو تاویل پیش کی وہ آب زریں سے لکھنے کے لائق ہے۔ اپنا منہ میرے کان کے قریب لاتے ہوئے سرگوشی کی۔ ”دراصل کیبنٹ ڈویژن کے انچارج، خود وزیراعظم عمران خان ہیں، اس لئے ہم احتیاط کرتے ہیں۔“ میں نے کہا کہ ”مرزا صاحب! وہ تو وزیراعظم ہیں۔ پورے ملک کے انچارج ہیں۔ سب ادارے، سب محکمے ان کے ماتحت ہیں۔ تو کیا ہم کوئی سوال بھی نہیں پوچھ سکتے؟“

انہوں نے میرے لہجے میں خلاف معمول تلخی کو بھانپتے ہوئے کہا۔ ”آپ دوبارہ جمع کرا دیں یہ سوال۔“ میں نے دوبارہ جمع کرا دیا لیکن آج تک اس کا جواب آیا نہ اسے مسترد کردینے کی کوئی اطلاع۔

30 اپریل 2021 کو میں نے سوال کیا۔ ”کیا محترم وزیر قانون اس معزز ایوان کو آگاہ کریں گے کہ ( 1 ) قومی احتساب بیورو (NAB) کے افسران اور عہدیداروں کو مختلف ملزمان سے پلی بارگین کے عوض انعام/ کمشن کی مد میں کل کتنی رقم ادا کی گئی ہے؟ ( 2 ) سب سے زیادہ انعامی/کمشن کی رقم حاصل کرنے والے دس اعلی افسران، عہدیداروں کے نام اور انہیں ملنے والی رقوم کی تفصیل؟“ 20 مئی 2021 کو مجھے تحریری اطلاع دی گئی کہ سوال ”غیر واضح“ ہے اس لئے نہیں پوچھا جاسکتا۔

13 اپریل 2021 کو میں نے پوچھا۔ ”کیا وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت بیان فرمائیں گے کہ پی۔ ٹی۔ آئی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک اسلام آباد اور وفاقی علاقے میں کتنے نئے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں؟ (ب) وفاقی حکومت کے زیراہتمام تربیت اساتذہ کے کتنے ادارے کام کر رہے ہیں؟ نیز وفاقی تعلیمی اداروں میں تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تعداد کیا ہے؟“ ۔ 20 مئی کو سیکریٹیریٹ کے ایک مراسلے کے ذریعے مجھے بتایا گیا کہ رول 48 ( 1 ) کے تحت یہ سوال قواعد کے مطابق نہیں ہے۔

13 اپریل 2021 ہی کو میں نے ایک اور سوال کا نوٹس جمع کرایا۔ ”کیا وزیرقانون و انصاف بیان فرمائیں گے کہ یکم ستمبر 2018 سے 31 مارچ 2021 ؁ تک نیب نے مجموعی طور پر کون کون سے افراد کے خلاف کتنے ریفرنس دائر کیے ہیں؟ کتنی انکوائریز کی منظوری دی ہے اور کتنی گرفتاریاں کی ہیں؟ (ب) کتنے بیوروکریٹس، سرکاری ملازم، صنعت کار اور تاجر اس وقت ان نیب مقدمات میں ملوث ہیں، کتنے اور کون کون سے افراد کب سے جیلوں میں ہیں اور ان کے خلاف اب تک ریفرنس دائر نہیں کیے جا سکے؟ (ج) کتنی خواتین گرفتار ہوئیں؟ کتنی قید گزار چکی ہیں اور کتنی اب تک قید میں ہیں؟“

31 مئی کو مجھے تحریری طور پر بتایا گیا کہ ”آپ کی مطلوبہ معلومات حساس نوعیت کی ہیں اس لئے چیئرمین سینٹ نے رولز آف پروسیجر کے رول 50 کے تحت اس سوال کی اجازت نہیں دی۔“

2 اگست 2021 ؁ کو میں نے سوال جمع کرایا۔ ”کیا معزز وزیر داخلہ اس ایوان کو آگاہ کریں گے کہ کس قانون یا ضابطے کے تحت اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو عدالتی اختیارات سونپے گئے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے مطابق انتظامیہ اور عدلیہ کی مکمل علیحدگی کے اصول کے منافی ہے؟“ 6 ستمبر کو مجھے آگاہ کیا گیا کہ چیئرمین سینٹ نے رول 54 کے تحت میرا سوال مسترد کر دیا ہے۔

23 ستمبر 2021 ؁ کو میں نے سوال تحریری طور پر سیکریٹیریٹ میں جمع کرایا کہ ”یکم ستمبر 2018 سے 31 اگست 2021 تک کے تین سالہ عرصے میں وفاقی حکومت کے توشہ خانے میں کس کس ملک سے کون کون سے تحائف آئے؟ ان کی کل تعداد کتنی ہے؟ (ب) ان میں سے کون کون سے تحائف وزیراعظم، وزرا معاونین خصوصی اور اعلی سرکاری حکام سمیت کن کن شخصیات نے کتنی کتنی مالیت میں خریدے؟ ریاست کو کل کتنی رقم وصول ہوئی؟ (ج) اصل متعینہ قیمت پر کتنی رعایت دی گئی؟“ اس سوال کے بارے میں سیکریٹیریٹ نے مجھے کوئی مراسلہ بھیجنا بھی ضروری خیال نہ کیا۔ میرے سٹاف نے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ”یہ زائد المیعاد ہو گیا ہے۔ دوبارہ جمع کرا دیں“ ، میں نے دوبارہ جمع کرا دیا۔ پھر بھی نہ بتایا گیا کہ اس پر کیا گزری؟ ایسا ہی سوال جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایک سے زیادہ بار جمع کرایا۔ انہیں بھی رسید تک نہ ملی۔

یہ مختصر سا حال پارلیمنٹ کے اس جزو کا ہے جسے ”ایوان بالا“ کہا جاتا ہے اور جس کے ارکان سو سو جتن کرنے کے باوجود اس سرکار سے، عام سی معلومات بھی حاصل نہیں کرسکے جس کے سربراہ صبح و شام ریاست مدینہ کا ذکر کرتے اور احتساب کے حوالے سے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے کرتے کی مثال دیتے تھے۔ اب وہ ”میرے تحفے میری مرضی“ کا نعرہ اس تفاخر کے ساتھ لگاتے ہیں جیسے حضرت عمر فاروقؓ نے کرتے کے بارے میں سوال پوچھنے والے کو کہا ہو۔ ”میرا کرتا میری مرضی“ ۔

آٹھ سال سے خان صاحب کا پرانا رفیق کار اور تحریک انصاف کا بانی رکن اکبر ایس بابر عدالتوں کی خاک چھان رہا ہے لیکن خان صاحب کبھی کسی بہانے کبھی کسی جواز کا سہارا لے کر اپنے کرتے کا حساب دینے سے انکاری ہیں۔ دعوی ان کا یہ رہا ہے ”سب سے پہلے میرا احتساب ہونا چاہیے۔“ اسلام آباد کے جواں ہمت صحافی رانا ابرار خالد سے پوچھیے کہ توشہ خانہ کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے اسے کتنے پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں۔

عمران خان کا عہد ہمہ گیر زوال و انحطاط کا عہد تھا۔ شفافیت اور جوابدہی سے محروم ایسا عہد جس کی کارگزاریاں دبیز پردوں میں چھپی ہیں۔ مگر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments