ان شاء اللہ اور انشاء اللہ میں فرق!


آج اپنے بھتیجے عبدا الحق کی وال پر ایک شخص کی تصویر کے ساتھ مولانا انشاء اللہ، نام لکھا ہوا دیکھا تو دماغ کی سکرین پر بار بار نظر سے گزرنے والا ان شاء اللہ اور انشاء اللہ کے درمیان فرق کرنے والا ایک دہشت ناک پیغام چلنے لگا۔ وہ پیغام یہ ہے کہ: ” ﻟﻔﻆ “ﺍﻧﺸﺎﺀ” کا ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ۔”ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ” اب ﺍﮔﺮ ” ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠّٰﮧ ” ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ مطلب بنتا هے “اللہ  ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ” ﻧﻌﻮﺫﺑﺎﺍللہ۔ دیکھیے اس مطلب سے ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ “ﺍﻧﺸﺎﺀ” ﮐﻮ ﻟﻔﻆ “ﺍﻟﻠّٰﮧ” ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
یہ بات بالکل درست ہے کہ لفظ “ان شاء اللہ” اور  لفظ “انشاء اللہ” کے درمیان رسم الخط اور معنی دونوں کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہے ، ان میں سے پہلا جملہ ٹوٹل تین کلمات پر مشتمل ہیں: یعنی حرف شرط ، فعل شرط اور لفظ جلالہ پر جبکہ دوسرا (انشاء اللہ) فقط دو کلمات پر مشتمل ہے ۔ جہاں تک مفہوم کا تعلق ہے تو ان میں سے پہلا تب بولا جاتا ہے جب کسی معاملے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ جوڑنا مقصود ہو، جبکہ دوسرے کا مطلب ہے اللہ کی تخلیق یا اللہ کی ایجاد، لہذا یہ تو طے ہے کہ اگر اپنی کسی بات کو اللہ تعالی کی مشیت سے جوڑنا مقصود ہو تو تینوں کلمات کو الگ الگ ہی لکھنا چاہیے۔ یعنی (ان) الگ ( شاء) الگ اور لفظ اللہ الگ۔کیونکہ اس کا معنی ہے، اگر اللہ نے  چاہا، اور یہ تب کہا یا لکھا جاتا ہے کہ جب متکلم اپنے کسی فعل کو اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف کرنا چاہے، مثلا میں کل آپ کے پاس آؤں گا اگر اللہ نے چاہا ۔ مگر آگے یہ کہنا” کہ انشاء اللہ کا مطلب ‘اللہ کو تخلیق کیا گیا ہے” اور یا اس طرح لکھنے پر کسے کے گناہ گار ہونے کا تاثر پیش کرنا، میرے علم کے مطابق شدید مبالغہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لکھنے والا اس نیت سے لکھتا ہی نہیں ہے بلکہ مطلب اس کا بھی وہی ہوتا ہے جو (ان شاء اللہ) کو الگ الگ لکھنے کی صورت میں نکلتا ہے یعنی اگر اللہ نے چاہا۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کی املاء غلط لکھتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے، دوسری وجہ یہ ہے کہ انشاء باب افعال سے مصدر ہے اور اس کی نسبت اللہ کی طرف کرنا درحقیقت مصدر کی اضافت فاعل کی طرف ہے جس کا معنی ہوگا اللہ تعالی کی تخلیق ، یا اللہ تعالی کی ایجاد ، نہ کہ اللہ کو تخلیق کیا گیا ۔ فاعل کی اضافت مصدر کی طرف عام ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے، چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 251۔ (وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ ۔ کہ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو یقینا زمین میں فساد بپا ہو جاتا) میں مصدر کی نسبت فاعل کی طرف کی گئی ہے۔
الغرض: یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی لفظ کو ٹھیک طریقے سے لکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ بعض اوقات معنی بالکل بگڑ جاتا ہے لیکن لوگوں کو اس جرم سے بچانے کے لیے روایتی واعظوں کی طرح خود ساختہ وعیدیں تراشنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے بلکہ لوگوں میں دہشت پھیلائے بغیر بھی درست املاء کا شعور اجاگر کیا جاسکتا ہے، جیسے نہ جہنم کی ہولناکی میں ہماری من گھڑت وعیدوں سے اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ جنت کا حسن ہمارے بیان کردہ جعلی فضائل سے مزید نکھر سکتا ہے ، بالکل اسی طرح جس نے فیس بک پر صرف سب وشتم لکھنا اپنا مشغلہ بنا رکھا ہو، وہ بھی ہماری خود ساختہ تہدید سے اپنی املاء درست کرنے کی فکر نہیں کرے گا۔ ایک نیا انکشاف کچھ عرصہ قبل ایک واعظ صاحب نے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے اپنی تقریر میں ‘حلیم’ (ایک خاص قسم کی کھچڑی) کو حلیم کہنے سے منع کرتے ہوئے اسے دلیم کہنے کی ترغیب دی تھی ، وجہ محترم نے یہ بیان فرمائی تھی کہ حلیم، اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے، لہذا کسی خاص قسم کے کھانے کو حلیم کہنے سے اللہ کی شان میں بےادبی لازم آتی ہے۔ حالانکہ نہ صرف یہ کہ دلیم کا استعمال کسی قسم کے کھانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ سرے سے یہ لفظ ہی کسی اردو لغت میں نہیں پایا جاتا ، اس کے برعکس لغت کی کتابوں میں حلیم کا ترجمہ جس طرح بردبار اور متحمل مزاج شخص سے کیا گیا ہے اسی طرح اناج ، گوشت اور مسالوں سے بنے ہوئے ایک خاص قسم کے کھانے سے بھی کیا گیا ہے۔ پس! جو حضرات اس قسم کی بےدلیل باتوں سے کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہوں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بعض الفاظ کا معنی ایک زبان میں اور ہوتا ہے اور دوسری زبان میں اور ، نیز بعض الفاظ کے متعدد معانی ہوتے ہیں ، جیساکہ زیر بحث لفظ “الحلیم” عربی زبان میں، اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے لیکن یہی لفظ بغیرالف لام کے اردو زبان میں ایک مخصوص کھانے کی ڈش کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس میں شرعا کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے کچھ صفاتی نام ایسے ہیں جو صرف اسی کی ذات عالی شان کے ساتھ مخصوص ہیں اور غیر اللہ پر اس کا اطلاق شرعا نہیں کیا جاسکتا، جیسے ‘الرحمٰن’ یا الوہاب وغیرہ۔  لیکن کچھ ایسے صفاتی نام بھی ہیں کہ جن کا اطلاق غیر اللہ پر بھی کیا گیا ہے،  خود قرآن کریم میں جہنمی شخص پر ‘عزیز’ اور ‘کریم’ کا اطلاق کیا گیا ہے کہ تم دنیا میں خود کو بڑا صاحب اقتدار اور عزت دار سمجھتے تھے اب چکھو یہ جہنم کا عذاب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments