سندھ کےشہر واہی پاندھی کے قریب زرتشتی آثار


سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں شہر واہی پاندھی قدیم شہر ہے۔ یہ شہر دادو شہر سے 45 کلومیٹر اور شہر جوہی سے 28 کلومیٹر مغرب میں

کیرتھر پہاڑی سلسلے کے قریب تر واقع ہے۔ واہی سندھی زبان میں پانی کے چھوٹے سے نالے یا ندی کو کہتے ہیں جس میں پہاڑوں میں سے قدرتی چشموں کا پانی میدانی علاقے کی طرف مستقل بہتا ہے۔ واہی قدیم ہے مگر بعد میں پاندھی نامی شخص نے اس واہی کے کنارے قصبہ قائم کیا جو واہی پاندھی کہلایا۔ اس واہی کے کنارے ایک قدیم ٹیلہ ہے جہاں سے ہڑپہ تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ کیوں کہ اس واہی یا نالے میں قدرتی چشموں کا پانی صدیوں سے بہتا چلا آ رہا ہے۔ اس وجہ سے یہاں موہنجو دڑو کی تہذیب کے دور سے لے کر مغل، ارغون، ترخان اور کلہوڑا دور تک کے آثار موجود ہیں۔ پانی کے اس نالے یا ندی کے دونوں کناروں پر زرتشتی آثار بھی موجود ہیں جو سندھ پر ایران کے دارا اول اور ساسانی تسلط کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخی تذکروں میں یہ بات موجود ہے کہ زرتشتیوں نے ایران سے پنجاب اور سندھ کی طرف نقل مکانی کی تھی۔

ویسے تو سندھ کے نامور محقق تاج صحرائے اور این جی مجمدار کے مطابق سندھ کے ضلع جامشورو میں بھی زرتشتی آثار دخموں یا ٹاور آف سائلنس اور قبروں کی صورت میں بھی واقع ہیں لیکن واہی پاندھی کے قریب زیادہ آثار ہیں۔ یہاں قدرتی چشموں کی بہتی چھوٹی ندی کے دونوں کناروں پر اونچی پہاڑی چوٹیوں پر قبروں کی صورت مین بنائے گئے ٹاور آف سائلنس ہیں۔ ان دونوں مقامات کے دور مختلف لگتے ہیں۔ جنوبی پہاڑی والی قبریں شمالی پہاڑی والی قبروں سے قدیم ہیں۔ قبروں کی تعمیر زمین کی سطح پر پتھر کے سلیبوں سے بنے پلیٹ فارم پر ہے۔ قبروں کا سر اور پاؤں والا حصہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ شاید زرتشتی مذہب کے مطابق گوشت خور جانور یا پرندے میت کا گوشت نوچ لیں اور ہڈیاں رہ جائیں۔ کچھ قبریں اوپر سے کھلی چھوڑ دی گئی ہیں اور کچھ قبروں کی دونوں سائیڈیں اور اوپر والا حصہ پتھر کے بڑے سلیبوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ قبروں کے اندر انسانی ڈھانچے کی ہڈیاں اب بھی نظر آتی ہیں۔

قبروں پر کوفی یا فارسی ٹائپ رسم الخط میں نام اور فقرے نقش ہیں۔ نام مقامی نہیں ایرانی لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوتک یوسف، عمر یوسف وغیرہ۔ ایک قبر کے پتھر پر مندرجہ ذیل تحریر نقش ہے :

”ملا محمد رادو کلموند تراش، اسحاق کوہ تراش، راز برادیا، پریا بحادین“

اس تحریر کو اردو میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ: ”ملا محمد مستری یا تعمیر کرنے والا، اسحاق پہاڑ تراشنے والی رازا یا مستری (Mason) بحادین برادری کے سربراہ“ ۔ اس عبارت یا تحریر میں لفظ ’بحادین‘ ایک بڑا حوالہ ہے کہ جن لوگوں کی یہ قبریں ہیں یا جنہوں نے بنائی تھیں وہ زرتشتی تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے دور میں 37۔ 636 ء میں ایران ہر حملہ کیا گیا جسے جنگ قادسیہ کہتے ہیں تب کچھ زرتشتی مذہب کے لوگ مسلمان ہوئے مگر زیادہ تر زرتشتیوں نے انکار کیا تو مسلمانوں نے ان کو ’گبر‘ کہا جس کا مطلب ناستک یا کافر ہے۔ جب کہ زرتشتیوں نے خود کو ’بحادین‘ (Behadin or Behdin) کہا جس کا مطلب ہے اعلی یا اچھے مذہب والے۔ مسلمانوں نے بعد میں ’قیاس‘ کے ذریعے زرتشتیوں کو اہل الکتاب قرار دے کر چھوڑ دیا تھا اور زردشت یا زرتشت کو ان کا نبی مانا تھا۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا والیوم 19 میں بحادین کو زرتشتی لکھا گیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا ویب سائیٹ پر بھی ’بحادین‘ زرتشتیوں کے لئے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ کئی حوالہ جات کتابوں میں اور نیٹ پر موجود ہیں کہ بحادین (Behadin or Behdin) زرتشتی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا ایرانیا میں بھی لکھا ہوا ہے کہ، ”بحادین زرتشتی ہیں اور لفظ کا مطلب ہے اچھے مذہب والے“ ۔ اس طرح گوگل بکس میں کئی کتابوں میں موجود ہے کہ لفظ بحادین (Behdin) زرتشتیوں کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔

واہی پاندھی شہر کے قریب کیرتھر پہاڑی سلسلے میں پہاڑوں پر نقش نگاری میں بھی زرتشتیوں کی مذہبی علامتیں نقش ہیں۔ بحادین زرتشتیوں کی ایک الگ برادری بتائی جاتی ہے۔ لفظ بحادین اور قبروں کی ٹاور آف سائلنس جیسی طرز تعمیر کی بنیاد پر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ واہی شہر کے قریب یہ قبریں زرتشتی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہیں۔ ایسی طرز تعمیر کی کچھ قبریں بعد کی لگتی ہیں جن پر قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعد میں زرتشتی مذہب کے یہ لوگ مسلمان ہو گئے ہوں گے اور مقامی لوگوں میں ضم ہو گئے ہوں گے مگر مدفن کی اس روایت کو برقرار رکھا ہو گا۔

بہرحال شہر واہی پاندھی کے قریب ٹاور آف سائلنس کی طرز پر بنائی گئی یہ قدیم خانے دار قبریں زرتشتی مذہب کی یادگار اور آثار ہیں۔ اس سلسلے میں مستند تحقیق کے دروازے بند نہیں ہیں۔ یہ آثار گورکھ ہل اسٹیشن کی طرف جانے والے راستے سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ تھوڑی سی لاگت سے راستہ بنایا جائے گا تو گورکھ ہل آتے جاتے سیاح اس تاریخی اثاثے سے بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اب سندھ کا یہ تاریخی ورثہ گم ہوتا جا رہا ہے جس کو محفوظ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments