فرانس کا صدارتی ا نتخاب


فرانس میں میرا قریبی عزیز تو کیا دور پرے کا کوئی شناسا بھی قیام پذیر نہیں ہے۔ اس کے باوجود اتوار کا سارا دن نہایت پریشانی سے منتظر رہا کہ وہاں ہوئے صدارتی انتخاب کے آخری مرحلے میں کون کامیاب ہوگا۔بالآخر موجودہ صدر میکرون ہی جیت گیا۔اس کی جیت مگر میرے اطمینان کا سبب نہیں۔ تھوڑا سکون یہ جان کر محسوس ہورہا ہے کہ اس کی مدمقابل ایک مرتبہ پھر ہار گئی ہے۔

انتخاب کے پہلے مرحلے میں جو لہر نمودار ہوئی اس نے پیغام دیاتھا کہ فرانس کے رائے دہندگان کی بھاری اکثریت اسلام دشمن نسل پرستی کو جنونی انداز میں اپنا چکی ہے۔ رواداری کی عادی نہیں رہی۔ نسل پرست ووٹ مگر بٹ گئے تھے۔ امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا جو تناسب نمودار ہوا اس نے مبصرین کی اکثریت کو البتہ یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ میکرون اور اس کی مخالف لاپن کے مابین ون آن ون مقابلہ ہوا تو ہٹلر کی ڈھٹائی سے مداح اور روسی صدر پوٹن کی دل وجان سے خیرخواہ خاتون جیت جائے گی۔ فرانس کے عوام نے تاہم ان کے خدشات کو جھٹلادیا ہے۔

اتوار کے دن فرانس کے صدارتی انتخاب کا جو نتیجہ برآمدہوا ہے وہ عمران خان صاحب کے جنونی مداحین کی توجہ کا طلب گار ہے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ اپنے تمام مخالفین اور ناقدین کو بلااستثنا غدار،امریکی غلام اور مذہب بیزار ٹھہراتے ہوئے وہ عوام کے متاثر کن مگر ایک مخصوص حلقے ہی کو متحرک اور بے چین رکھ سکتے۔ نفرت بھرا غصہ انتخابی معرکوں میں کامیابی کی ضمانت نہیں۔ فطری طورپر عوام کی اکثریت امن وسکون کی متلاشی ہوتی ہے۔سیاستدانوں سے یہ توقع بھی باندھتی ہے کہ وہ اقتدار میں آئیں تو عوام کی روزمرہّ زندگیوں میں آسانیاں فراہم کریں۔ صحت عامہ کو بہتر بنانے کے علاوہ تعلیم کے فروغ کی جانب بھی توجہ دیں۔ سب سے اہم یہ امید ہوتی ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں ایسی رونق فراہم کریں گے کہ جو پسماندہ اور نچلے متوسط طبقے کو کم از کم اپنے حالات بہتر کرنے کے مواقع دکھائیں۔

اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران حکومت مذکورہ امور کی جانب توجہ مبذول ہی نہیں کرپائی۔”چوروں اور لٹیروں“ کو قومی خزانہ خالی کرنے کا دوش دیتے ہوئے انہیں احتساب بیورو  کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنانے کی کاوشوں میں مصروف رہی۔ قومی حمیت کا ڈھول پیٹتے ہوئے آئی ایم ایف سے بروقت رجوع نہیں کیا۔ آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر اپنے تئیں معاملات سنبھال نہیں پائی تو 2019ء کا بجٹ تیار کرنے سے قبل اس کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ عالمی معیشت کے حتمی نگہبان سے مذاکرات کے لئے اسے اپنا ایک کلیدی رہ نما اسد عمر قربان بھی کرنا پڑا۔ ان کی جگہ آئی ایم ایف کے لاڈلے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ تعینات ہوئے۔ موصوف نے غیر سیاسی ذہن کے ساتھ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے 6ارب ڈالر کی رقم قسطوں میں لینے کے لئے جن شرائط کو غلامانہ انداز میں تسلیم کیا اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی۔

عوام کے دلوں میں آئی ایم ایف کی مسلط کردہ شرائط کی وجہ سے جو غصہ ابھرا تحریک انصاف کی صفوں میں بغاوت کی آگ سلگانے کا باعث ہوا۔ اگست 2018ء میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی ”اپنے حلقوں“ میں جانے سے گھبرانا شروع ہو گئے۔ اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی ایک نشست پر ہوئے انتخاب کے دوران انہوں نے خفیہ رائے شماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں کامیاب کروا دیا۔

گیلانی کی حیران کن کامیابی کی ٹھوس سیاسی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے عمران خان صاحب اس شک میں مبتلا ہوگئے کہ پارلیمان کو ان کی آسانی کے لئے ”قابو“ میں رکھنے والی قوتیں ان سے دور ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ان ہی قوتوں سے تقاضا ہوا کہ وہ اب یوسف رضا گیلانی کو کسی صورت چیئرمین سینٹ منتخب ہونے نہ دیں۔وزیر اعظم کو اطمینان دلانے کے لئے وہ رضا مند ہوگئے۔

صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے منصب پر برقرار رکھنے کے بعد عمران خان صاحب کے لئے لازمی تھا کہ وہ کسی منتخب رکن قومی اسمبلی ہی کو وزیر خزانہ بناکر جون 2021ء کا بجٹ تیار کرنے دیتے۔حماد اظہر کی تعیناتی اس ضمن میں امید دلانے کا سبب ہوئی۔ وہ مگر دس دن سے زیادہ وزارت خزانہ کے منصب پر نہ رہ پائے۔ان کی جگہ ایک اور ٹیکنوکریٹ بینکار شوکت ترین کو تعینات کردیا گیا۔

غیر سیاسی وزیروں کو ہماری افسر شاہی اعدادوشمار کے مکارانہ ”تجزیے“ سے خوش کر دیتی ہے۔ شوکت ترین کو انہوں نے چند ہی دنوں میں قائل کر دیا کہ کرونا کی وجہ سے عالمی منڈی میں پھیلی کساد بازاری کے باوجود پاکستان کی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے۔نئی موٹر سائیکلیں اور کاریں ریکارڈ ساز تعداد میں خریدی گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مہنگے ترین ریستورانوں میں صارفین کو بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مری میں برف باری کا آغاز ہو تو اس شہر میں داخلے کے لئے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔

”خوشحالی“ کی من پسند وجوہات ڈھونڈ کر تخلیق ہوئی داستان سے متاثر ہوکر شوکت ترین نے جو پہلا بجٹ تیار کیا اسے قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینہ پھلا کر یہ دعویٰ کرتے رہے کہ گزرے مالی سال کے دوران نمو اور خوشحالی کی جو شرح معجزہ کن انداز میں نمودار ہوئی ہے اسے برقرار رکھنے کے لئے اب لازمی ہے کہ بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں مزید اضافہ نہ ہو۔وہ قوم کو بار ہا یقین دلاتے رہے کہ وہ اس تناظر میں آئی ایم ایف کو بھی رضا مند کرلیں گے۔ چھ ماہ گزرجانے کے بعد ہی مگر ان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے حکام سے مذاکرات کے بعد وطن لوٹے تو برملا یہ گلہ کرنا شروع ہوگئے کہ عالمی معیشت کے نگہبانوں کا رویہ ”دوستانہ“ نہیں۔زرداری-گیلانی دور میں وہ جب بطور مشیر خزانہ ان سے ملے تھے تو رویہ ہمدردانہ تھا۔اس کے باوجود ”منی بجٹ“ کے امکانات کو حقارت سے ”فیک نیوز“ قرار دیتے رہے۔

بالآخر گزشتہ برس ختم ہوتے ہی انہیں یہ بجٹ متعارف کروانا پڑا۔”منی بجٹ“ کو ”ان“ کی مدد سے پاس کروا لینے کے بعد عمران صاحب کے لئے مناسب تھا کہ شوکت ترین کو فارغ کر دیتے۔ اپنی اقتصادی پالیسی پر یہ سوچتے ہوئے توجہ دیتے کہ 2023ء میں انہیں عوام سے دوبارہ ووٹ مانگنے جانا ہے۔ شوکت ترین کو تاہم انہوں نے خیبر پختونخواہ اسمبلی سے سینیٹر منتخب کروالیا۔

روس یو کرین پر حملہ آور ہوا تو عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں ٹھوس اقتصادی وجوہات کی بنا پر اضافہ ہو گیا۔ عالمی منڈی کے نمایاں رحجان کا حوالے دیتے ہوئے وہ اگر پیٹرول کی اضافی قیمتوں کا تھوڑا بوجھ عوام کو منتقل کردیتے تو اسے کڑوے گھونٹ کی طرح برداشت کرلیا جاتا۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے مگر انہوں نے پیٹرول وگیس کی قیمت کو آئندہ بجٹ تک منجمد کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ قیمتوں کا انجمادبرقرار رکھنے کے لئے ریاستِ پاکستان کے پاس سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ وقتی طورپر سادہ لوح عوام اگرچہ مطمئن ہوگئے۔ یہ اطمینان مگر ان کی حکومت برقرار رکھنے کے کام نہیں آیا۔

وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد عمران خان صاحب محض ”امریکی سازش“ کی دہائی مچارہے ہیں۔مذکورہ دہائی نے ان کے دیرینہ مداحین کو یقینا پرجوش بنادیا ہے۔ ان کی جگہ آئی حکومت کے ہاتھ پاﺅں پھولے ہوئے ہیں۔ وہ مگر اقتصادی بحران کو قابل برداشت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو تحریک انصاف قبل از وقت انتخاب حاصل نہیں کر پائے گی۔ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کریں گی۔ تحریک انصاف کی جانب سے فی الوقت جو جوش وجذبہ دکھایا جا رہا ہے اسے 2023ء کے وسط تک برقرار رکھنا فطری اعتبار سے ممکن نہیں۔ فرانس کے صدارتی انتخاب کے نتائج پر غور کرتے ہوئے تحریک انصاف کو نئی حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments