اپنے پیشے سے وابستگی کی غیر معمولی کہانی


یہ ان سے پہلا رابطہ تھا۔ فون پر جب مریضہ کی حالت بتائی گئی تو انھوں نے جواب میں سوموار کو آنے کو کہا۔ جب یہ وضاحت کی گئی ”ڈاکٹر صاحب دانتوں کی تکلیف کا آپ سے زیادہ کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ آج ہفتہ ہے اور درد کی شدت دیکھے ہوئے یہ کہنا واقعی مشکل ہے کہ سوموار تک نہ جانے مریضہ کی کیا حالت ہو“ ۔ اس وضاحت پر، صورت حال بھانپتے ہوئے انھوں نے نہایت شائستگی سے پوچھا اس وقت آپ کہاں ہیں۔ نشان دہی پر انھوں نے ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد ہسپتال پہنچنے کو کہا۔

مقررہ وقت سے ذرا پہلے ہی ہسپتال پہنچنا مناسب لگا تاکہ انھیں انتظار نہ کرنا پڑے۔ استقبالیہ پر جب ڈاکٹر صاحب سے طے ہونے والے وقت کا حوالہ دیا گیا تو ادھر، یکسر لا علمی ظاہر کی گئی بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ آج ایسا ہونا بالکل ممکن نہیں۔ وضاحت پر استقبالیہ سے بتایا گیا کہ آج ( بہ روز ہفتہ ) ڈاکٹر صاحب کا آف ہے اس لئے وہ آج کیوں کر ہسپتال آسکتے ہیں۔ جب استقبالیہ کو یہ جتایا گیا کہ ملنے کے لئے یہ وقت خود ڈاکٹر صاحب نے ہی دیا ہے، تب بھی استقبالیہ کا ردعمل مثبت نہیں تھا۔ اس کی وجہ ان کی طرف سے یہ بتائی گئی کہ ڈاکٹر صاحب کا اسسٹنٹ ابھی چھٹی کر گیا ہے اور اسسٹنٹ کے بغیر دانتوں کا ٹریٹمنٹ ممکن نہیں۔

اس مکالمے کے بعد امید اور نا امیدی کی کیفیت رہی مگر مریضہ کی حالت دیکھتے ہوئے طے شدہ وقت تک ٹھہرنا، ہر دو اعتبار سے ضروری تھا۔ اولاً اس لئے کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا وقت طے ہوا تھا اور ثانیاً یہ اس لئے بھی مناسب نظر آتا تھا کہ اس التوا سے کہیں بات سوموار تک نہ ٹل جائے۔ اس تمام صورت حال میں موہوم سی یہ توقع بھی برقرار تھی کہ شاید استقبالیہ کے تمام دلائل، ان کے غلط اندیشے ثابت ہوں، اور ویسا نہ ہو، جیسا کہا جا رہا ہے۔

ہسپتال کے مرکزی استقبالیے پر نظر رکھنا اس لئے بے کار تھا کہ تب تک ڈاکٹر صاحب سے چہرہ شناسائی نہیں ہوئی تھی، محض آواز تک رسائی تھی، سو یہ بھی ہسپتال کے اسٹاف پر منحصر تھا کہ وہ ہی ڈاکٹر صاحب کے آنے یا نہ آنے کی اطلاع فراہم کریں۔ ان ہی سوچوں میں وقت کے گزرنے کا پتہ نہ چلا اور اس وقت خوشگوار حیرت مقابل تھی جب، استقبالیہ کے اسٹاف نے خود بھی اپنی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب کے پہنچنے کی اطلاع دی۔

کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ان کے کمرے میں آنے کا کہا گیا۔ ان کی مدد کے لئے ایک نرس بھی وہاں آ چکی تھی۔ اس نرس کی موجودگی سے استقبالیہ والوں کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی کہ ان کا اسسٹنٹ چھٹی کر چکا ہے۔ اس کا مزید اندازہ تھوڑی دیر میں، یوں بھی ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے ٹریٹمنٹ کی ابتدا میں جب کیبنٹ سے کوئی چیز طلب کی تو نرس اسے ڈھونڈ نے میں کامیاب نہ ہوئی۔ اس بات پر ڈاکٹر صاحب نے اس کے سامنے تو کوئی ردعمل تو ظاہر نہ کیا البتہ موبائل سے کوئی نمبر ایک سے زائد بار ملانے کی کوشش کی جس کے بارے میں یہ قیاس کیا جاسکتا تھا کہ شاید وہ اپنے اسسٹنٹ سے رابطے کی کوشش کر رہے تھے مگر چھٹی کے بعد غالباً یا تو وہ موبائل سے دور تھا یا اسے بند کر چکا تھا۔

اس عرصے میں ڈاکٹر صاحب اپنے مطلوبہ آلات اور متعلقہ اشیا کی تلاش میں یکے بعد دیگرے دیوار پر آویزاں تقریباً سارے کیبنٹ کھلوا چکے تھے۔ بہ ظاہر وہ نرس، شاید اس مخصوص فیلڈ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے، یہ چیزیں ڈھونڈنے یا ان چیزوں کو سمجھنے میں ناکام دکھائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے رویے کو دیکھتے ہوئے، ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی نمایاں ہوا کہ برداشت کسے کہتے ہیں۔ نرس کی کوششوں کی ناکامی پر انھوں نے خود بھی کیبنٹ سے ضرورت کی چیزیں کئی بار تلاش کیں۔ ہر روز سے مختلف، اس غیر معمولی ماحول کے باوجود ڈاکٹر صاحب پوری یکسوئی اور انہماک سے ٹریٹمنٹ پر متوجہ رہے اور کمال یہ کہ انھوں نے کسی بھی موڑ پر خفگی یا جھنجھلاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔

جانے کتنی دیر یہ ٹریٹمنٹ چلتا رہا۔ ہسپتال کی روشنی میں یہ قیاس کرنا مشکل تھا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ یہ احساس تب ہوا جب ڈاکٹر صاحب نے مغرب کی نماز کے لئے اجازت چاہی۔ کافی شرمندگی ہوئی کہ انھیں ان کی چھٹی کے دن اس ناگہانی سے دوچار کر کے کس مشکل میں ڈال دیا ہے۔ نماز سے ڈاکٹر صاحب کی واپسی کے بعد اس شرمندگی میں اس وقت اور اضافہ ہوا جب ایک نائب قاصد نے کسی خاتون کے آنے کی اطلاع دی۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ تعطیل کے دن اس تاخیر پر، مقدور پر صبر اور انتظار کرنے کے بعد ، انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک خود پہنچ گئی ہیں۔

اب یہ توقع یقینی نظر آتی تھی کہ اس ٹریٹمنٹ کی تکمیل آج نہیں ہو سکے گی اور یہ معاملہ سوموار تک ملتوی ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر ان حالات میں گھر جانے کی خواہش کریں گے اور ایسا کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے، مگر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی جانے کتنی پرت آج کھلنی تھی۔ جب وہ کمرے میں دوبارہ تشریف لائے تو پتہ چلا کہ انھوں نے یہ کہہ کر اہلیہ کو باہر بیٹھنے کا کہا کہ ابھی تھوڑا کام رہتا ہے۔ اور دیکھتے دیکھتے پھر وہی یکسوئی اور انہماک کا عالم تھا جو ابتدا سے ابھی تک، تمام تر مشکلات کے جاری تھا۔ انھوں نے کسی طرح بھی اس موقع پر جلد بازی یا تیزی سے کام سمیٹنے کا تاثر ابھرنے نہیں دیا۔

پہلے رابطے سے لے کر اب تک جو کچھ ہوا، یوں لگا جیسے سب خواب ہو۔ جیسے کسی کتاب میں، آپ نے کوئی کہانی پڑھ لی ہو۔ جیسے کسی نے کسی اور دیس کا قصہ سنایا ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے سے وقت بھی نہ لیا ہو، فرصت کا دن بھی ہو، اسسٹنٹ بھی کہیں لاپتہ ہو، اور اس کے باوجود کام توقع اور خواہش سے بھی بڑھ کر انجام پائے۔ شاید ایسا جب ہی ممکن ہے، اگر انجام دہی اس کے ذمہ ہو، جسے اپنے پیشے سے وابستگی کا بھرم رکھنے کا جنون ہو۔

اپنے پیشے کے لئے، انتہائی لگن اور غیر معمولی جذبے سے کام کرنے والے جس ڈاکٹر سے یہاں تعارف ہوا، اس ڈاکٹر کا نام حامد نصر ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments