لڑکیوں کا گھر سے فرار ’والدین بھی ذمہ دار ہیں


بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے ’قصہ دہرانا ضروری نہیں بس اپنی ماؤں سے یہ استدعا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھیں۔ کہتے ہیں کہ انسان کی تربیت کا عمل ماں کی کوکھ سے ہی شروع ہوجاتا ہے‘ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے والدین کی توجہ کا محتاج ہوتا ہے ’وہ والدین کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے اور ان کے عمل کے مطابق ہی جیتا ہے۔ ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں کہ والدین بہت نیک ہوں اور ان کی اولاد شیطان نکلے کیونکہ والدین کے اطوار بچوں کے رگ و پے میں اترے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر ہی و الدین خصوصاً مائیں اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیا کرتی تھیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تربیت کا یہ عمل کمزور پڑتا نظر آیا اور آج ہم اس کے مضمرات سے نبرد آزما ہیں۔

کل کے بچے ماؤں کی گود میں تھے ’آج کاٹ یا پرام میں پائے جاتے ہیں‘ کل بچوں ’خصوصاً نوزائیدہ بچوں کے کانوں میں ماؤں کی لوریاں گونجتی تھیں‘ آج کے بچے موبائل پر گانے سنے بغیر سونے کا نام نہیں لیتے۔ ماؤں کا زیادہ وقت موبائل سرچنگ میں گزرتا ہے ایسے میں وہ ساتھ بیٹھے بچے کو بھی موبائل یا ٹیب پکڑا کر ان کے سوال و جواب سے جان چھڑا لیتی ہیں۔ ٹیوشن کے نام پر بچے سارا سارا گھر سے غائب رہتے ہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر کی دنیا میں مگن یہ بچے اپنا اصل فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

آج انٹرنیٹ ان کی تربیت گاہ اور موبائل ان کی آماجگاہ ہے جہاں سے وہ باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے ’وہیں سے سیکھتے ہیں اور ویسا ہی بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کورے کاغذ جیسے ذہنوں پر جہاں ہمیں اپنی اقدار اور اسلامی شعائر رقم کرنے چاہیے وہاں جو کچھ درج ہو رہا ہے اسے آپ معاشرتی خرابی کی جڑ قرار دے سکتے ہیں۔ آج ہمارے بچے ہمارے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں‘ بارہ اور چودہ سال کے بچے جنہیں اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہے ’وہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں‘ پیچھے والدین لکیر پیٹ رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں وہ وہی کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے بویا تھا۔

موقع عید کا ہے لیکن یکے بعد دیگرے ہونے والے چند واقعات نے آج اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ میری پوری قوم کے والدین خصوصاً ماؤں سے یہ درخواست ہے کہ آپ کی اصل توجہ کا مرکز ہماری آنے والی نسل ہونی چاہیے۔ آپ اپنے شوق بھی پورے کیجئے لیکن اپنی اولاد کو اس شوق کی بھینٹ نہ چڑھایے۔ ماڈرن ازم کے نام پر اپنے بچوں کو جو آزادی دے بیٹھے ہیں وہ انہیں بربادی کے راستے پر لے جا رہی ہے اور اگر کوئی انہیں محفوظ کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف آپ ہیں۔ اپنے بچوں پر نظر رکھنا نہایت ضروری ہے ’انہیں دنیا جہان کی سہولیات کی فراہمی اور بہترین لائف اسٹائل کے حصول کی تگ و دو میں ہم ان کی تربیت کا عمل فراموش کر رہے ہیں۔

بیٹی تیرہ سال کی ہے ’چودہ کی یا پھر اٹھارہ کی‘ مسئلہ اس کی عمر نہیں بلکہ اس عمر میں آزادی کی خواہش ’والدین سے زیادہ دوسروں پر اعتماد کی روش کی ہے‘ سوچئے کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو آخر کیوں؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے والدین کی بچوں پر عدم توجہی ’آج کے والدین اپنی مصروفیات میں الجھ کر بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یہ وہ فاش غلطی ہے جو ہماری نسلوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے‘ آثار نظر آنے شروع ہو گئے ہیں ’ابھی وقت ہے‘ ابھی خود کو سنبھال لیں۔ اپنے گھر پر توجہ دیں ’اپنے بچوں پر توجہ دیں بصورت دیگر ایسے واقعات سامنے آنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments