مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کریں


فیصل آباد میں توہین مذہب کی متعدد شقات کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر داخلہ شیخ رشید، سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے علاوہ تحریک انصاف کے متعدد دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے مسجد نبوی میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد میں شامل لوگوں کے خلاف احتجاج منظم کیا اور اس طرح مقدس مقام کی توہین کی گئی اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔

یہ شکایت اگرچہ ایک عام شہری محمد نعیم کی طرف سے فیصل آباد میں درج کروائی گئی ہے لیکن اسی روز شام کے وقت اسلام آباد میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس ایف آئی آر پر تفصیلی گفتگو سے یہ واضح کیا ہے کہ اس مقدمہ کے درپردہ ملک کی سیاسی قیادت شامل ہے۔ پاکستان میں مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روایت نئی نہیں ہے لیکن سیاسی مخالفت کی بنا پر یا سیاسی احتجاج کی بنیاد پر توہین مذہب کی شقات کے تحت مقدمہ قائم کرنے سے پاکستان کے سیاسی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ یوں بھی پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو عام طور سے متعصبانہ رویوں کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر صورتوں میں جھوٹ اور ناقص معلومات کی بنیاد پر مقدمات قائم کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بے گناہ لوگ طویل عرصہ تک جیل میں بند رہتے ہیں۔ معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر نہ تو اس قسم کے مقدمات پر کھل کر بات ہوسکتی ہے اور نہ ہی عام طور سے لوگوں کو انصاف حاصل ہو پاتا ہے۔

عمران خان اور ان کے ساتھی بااثر اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں تو شاید یہ مقدمہ قائم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ملک میں سیاسی مباحث میں مزید تلخی اور رویوں میں سختی پیدا ہوگی۔ حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے اس اقدام سے یہ تاثر قائم ہوگا کہ حکمران اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے سیاسی حساب برابر کرنے کے لئے توہین مذہب کے قانون کو استعمال کرنے جیسے حربے استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس تاثر سے ملک کے ان جمہوریت پسند عناصر کو بھی مایوسی ہوگی جنہوں نے آئین کی بالادستی کے نام پر ملک میں حکومت کی تبدیلی کو قبول کیا ہے اور یہ امید باندھی ہے کہ نئی حکومت چونکہ متعدد سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ہے، اس لئے اس کے دور میں مفاہمت اور وسیع المشربی کی روایت کو زندہ کیا جائے گا تاکہ ملکی سیاست میں الزام تراشی اور تعصب وعناد کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا طریقہ ختم ہوسکے۔ تاہم نئی حکومت کے دو اہم وزیر اگر اس معاملہ کو مذہبی حوالہ سے اہم قرار دے کر مقدمہ قائم کرنے اور اس پر تیزی سے کارروائی کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو اس کا یہی مطلب اخذ کیا جائے گا کہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت بھی ملک میں سیاسی انتقام کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اور اس مقصد کے لئے وہ کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہے۔

 توہین مذہب کے قوانین کو سیاسی مقابلے میں برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے سے موجودہ حکومت کا اعتبار متاثر ہوگا، اسے صریحاً ناجائز اور انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔ اس سے عوام کے مختلف گروہوں میں پائی جانے والی تلخی میں اضافہ ہوگا۔ کسی حکومت کو ایسا کوئی اقدام زیب نہیں دیتا جو لوگوں کو تقسیم کرنے کا سبب بنے۔ خاص طور سے اگر سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو اس سے معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی میں بھی اضافہ ہوگا اور انتہاپسندانہ رویوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ آج حکومتی وزیر ایک افسوسناک سیاسی سانحہ کی بنا پر تحریک انصاف کی قیادت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف اگر توہین مذہب قوانین کا استعمال جائز قرار دیں گے تو عام شہری بھی یہی سمجھے گا کہ ان قوانین کو وہ بھی اپنے ’فائدے و منفعت‘ کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے بلاسفیمی قوانین کے ناجائز استعمال سے معاشرے میں اس قسم کی شدت پسندی پہلے ہی راسخ ہے، لیکن موجودہ اتحادی حکومت کا نیا اقدام اسے مضبوط کرے گا جس سے معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ مستحکم ہوگااور انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم کرنے اور اس کے تحت کارروائی کا عزم ظاہر کرنے کی مذمت کی ہے اور حکومت کو اس سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ ایک صائب اور اصولی مؤقف ہے۔ پاکستان کا ہر ہوشمند اور امن پسند شہری اس مؤقف کی حمایت کرے گا۔ حکومت وقت میں مسلم لیگ (ن) کے عناصر کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ یہ اس پارٹی کی اکثریتی حکومت نہیں ہے۔ بلکہ یہ متعدد سیاسی پارٹیوں کا متحدہ پلیٹ فارم ہے جس میں مذہبی انتہاپسندی سمیت متعدد معاشرتی و سیاسی مسائل پر مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر اگر کوئی ایسا طرز عمل اختیار کریں گے جس سے ان پارٹیوں کے بنیادی اصولی مؤقف کو نقصان پہنچنے گا تو اس سے اتحادی حکومت میں انتشار اور بدمزگی پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ شہباز شریف کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ قومی اسمبلی میں صرف دو ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے ارکان بظاہر اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں۔ یہ صورت حال بھی آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں ایک بڑا سیاسی و پارلیمانی چیلنج بن کر سامنے آسکتی ہے۔ اس پس منظر میں موجودہ حکومت کو نہایت احتیاط سے پالیسی بنانے اور کابینہ کو اعتماد میں لئے بغیر اس قسم کے سطحی فیصلے کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

مدینہ منورہ میں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی آمد کے موقع پر ہونے والی ہلڑ بازی کی وسیع بنیاد پر مذمت کی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے مخالف عناصر نے بھی مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک پر سیاسی مقصد کے لئے نعرے بازی، دست درازی اور دشنام طرازی پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ عام طور سے اس شدید ردعمل کی وجہ سے ہی عمران خان کو پسپائی اختیا رکرتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی ہے۔ تحریک انصاف نے شروع میں اگرچہ اس احتجاج پر خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن عوامی ناراضی سامنے آنے کے بعد وہ مظاہرین سے لاتعلقی ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ رسول پاکﷺ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسی گھناؤنی حرکت کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔ اگرچہ پارٹی کے دیگر لیڈروں کی طرح انہوں نے بھی اس احتجاج کو ’عوامی رد عمل‘ قرار دے کر اسے بالواسطہ طور سے جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ البتہ عام فہم کے لئے یہ کافی ہونا چاہئے کہ عمران خان مسجد نبوی میں ایسے احتجاج کو غلط اور غیر پسندیدہ کہہ رہے ہیں۔ اس بیان کے بعد ان کے خلاف اس احتجاج کی سازش کرنے اور اس طرح توہین مذہب کا ارتکاب کرنے کا مقدمہ قائم کروانے اور اس کا دفاع کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔

رانا ثنا اللہ نے اس معاملہ پر پہلے روز سے ہی غیر معمولی طور سے شدید رویہ اختیار کیا ہے جو کسی بھی وفاقی وزیر کو زیب نہیں دیتا۔ پہلے انہوں نے بیان دیا کہ پاکستانی وزارت داخلہ سعودی حکومت سے درخواست کرے گی کہ ایسی حرکت میں ملوث عناصر کی نشاندہی کی جائے، انہیں قرار واقعی سزا دے کر ڈی پورٹ کیا جائے اور حکومت پاکستان کو بھی اس بارے میں مطلع کیا جائے تاکہ پاکستان میں بھی ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ یہ بیان اس حقیقت کے باوجود دیا گیا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت امن و امان اور حرمین شریفین کے تقدس کے معاملہ میں حساس بھی ہے اور فوری سخت اقدام کرنے کی شہرت بھی رکھتی ہے۔ راناثنا اللہ کے بیان کا بظاہر کوئی جواز نہیں تھا۔ اور نہ ہی سعودی حکومت پاکستان کے کہنے یا ایک وزیر کے بیان کے بعد اپنی حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس بیان کا ایک ہی مقصد دکھائی دیتا تھا کہ ملک میں سراسیمگی پید ا کی جائے اور تحریک انصاف کے حامیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جائے۔

اب توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ کا اندراج اور اس پر دو وفاقی وزیروں کی گرمجوشی نے معاملہ کو مزید الجھا دیا ہے۔ یہ اقدام صریحاً سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے کیا جا رہا ہے تاکہ سیاسی مخالفین کو پسپا ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ خاص طور سے رانا ثنااللہ کا یہ دعویٰ کہ اس مقدمہ کے تحت عمران خان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، حکومت کے شدت پسندانہ رد عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے اور سیاسی اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ انہیں وزیر اعظم نے اس معاملہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ’اگر کوئی حرکت ملکی قوانین کے تحت قابل سزا جرم ہو تو ایسے تمام افراد کو پاکستان میں بھی سزا دی جا سکتی ہے خواہ یہ جرم بیرون ملک ہی کیوں سرزد نہ ہؤا ہو‘۔ اس بیان سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کچھ حکومتی عناصر مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعہ پر تحریک انصاف کو گھیرنا چاہتے ہیں۔

یوں تو موجودہ سیاسی ماحول میں محض تحریک انصاف کو دبانے کے لئے کسی بھی قسم کی مقدمے بازی نہ صرف کم ظرفی ہوگی، سیاسی طور سے غیر اخلاقی رویہ ہوگا بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے اس وعدے سے بھی انحراف ہوگا کہ ان کی حکومت انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتی اور ملکی تعمیر کے ایک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ تاہم توہین مذہب کو سیاسی لڑائی کا حصہ بنا کر ایک افسوسناک اور خطرنا ک روایت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اس معاملہ پر ہوشمندانہ اور متوازن طرز عمل اختیار کریں گے۔ اور فیصل آباد میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کو نظر انداز کرکے ساری توجہ ملک میں ہم آہنگی، مفاہمت اور باہمی احترام کو فروغ دینے کی طرف مبذول کی جائے گی۔

اس سیریز کے دیگر حصےشوہر کو بتائے بغیر نس بندی کرا لی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments