عوامی حاکمیت کی بالادستی


قانونی سکالر فریڈرک شوئر سے پوچھا گیا کہ آئین کو آئینی کیا بناتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کچھ نہیں، نہ ہی کوئی چیز آئین کو غیر آئینی بناتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز بنا سکتی ہے۔ یہی سوال کہ کیا آئین غیر آئینی ہو سکتا ہے؟ تو زیادہ تر ممالک میں یہ ایسا سوال نہیں جس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، اس سوال کو قدرے عجیب بھی سوچ سکتے ہیں اور کسی بھی قانونی کتاب کے بارے میں اپنی رائے بنا سکتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ایک گہرا سوال ہے اور اس کی اہمیت اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جیسا کہ پنجاب میں آئین کے نام پر آئینی اور غیر آئینی اقدامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، اس سوال کا جواب ہر ایک اپنی مرضی سے تو دے ہی رہا ہے وہاں ہائی کورٹ کی جانب سے بار بار آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا جاتا ہے تو عدلیہ کے فیصلے کو بھی آئین اور قانون کی بنیاد پر رد، مسترد یا التوا کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ آئین پرستی حدود اور خواہشات کے بندھن میں بندھے ہونے کا نام ہے، کیا رسمی تبدیلی میں کوئی بنیادی رکاوٹیں اس معاملے کو آگے جا کر مزید سنگین بنا سکتی ہیں تو یقینی طور پر مستقبل میں اس کے اثرات انتہائی پریشان کن صورت حال کو پیدا کرنے کا جواز بن سکتا ہے۔

نظریہ ضرورت پر انحصار کم یا ختم کرنے سے ہی آئینی تبدیلیوں کو روکا جاسکتا ہے، وہ لوگ جنہوں نے ترمیم کی طاقت پر مضمر حدود کے لیے دلیل دے کر اکثر مقبول خود مختاری کے نظریہ کو اپنا یا اور جنہوں نے ان کی مخالفت کی، اسی طرح اکثر، نظریہ ضرورت کو ان کے جوابی دلائل کا جواز فراہم کرنے کے لیے کافی کومل پایا ہے، لہٰذا ایک طرف، ہمارے پاس ایسے دلائل ہیں جو بعض آئینی حقوق کو عدم تبدیلی کو قائم کرنے کے لیے عوامی خود مختاری کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک ناقابل تردید آئین، جسے عملی طور پر نافذ ہونے کے باوجود ایک نسل نے اس وقت اپنایا جب شاید ہی کوئی حکومت کی رضا مندی کے مظہر کو طور پر دیکھ رہا تھا تو دوسری جانب یہ اصرار کہ لوگ درحقیقت تمام طاقت کا سرچشمہ تھے اور ان کا سہارا لے کر تمام مشکلات کو ختم کرنے کے لیے جس طرح چاہیں آئین میں ردو بدل کر سکتے ہیں۔ اس پر یہ سوال ضرور اٹھ جاتا ہے کہ اگر لوگ تبدیلی اور ترقی کے نام پر آئین کو تباہ کرنے کے لیے اپنا فرض کردہ آئینی اختیار استعمال کریں تو کیا ہو گا؟

عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے، خود مختاری کا ایک ایسا بیانیہ اپنایا جا سکتا ہے جو کسی بھی انقلابی دور کے لیے سیاست کا واحد اہم ترین خلاصہ قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ آئین کی ڈی فیکٹو تنسیخ کے علاوہ کسی بھی چیز پر غور نہیں کیا جا رہا کیونکہ ہر دو کے نزدیک جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین و قانون کے مطابق ہے اور جو کچھ نہیں ہونا چاہیے وہ بھی قانون اور آئین کے مطابق ہی ہے۔ نظریات کے اس بنیادی تصادم میں عوام کہاں کھڑی ہے اس پر فیصلہ ابھی باقی ہے۔

ہمارے پاس قدرتی قانون بھی ہے جس میں کوئی بھی، ترمیم یا کالعدم نہیں کر سکتا لیکن اس کا نفاذ نہ ہونے سے اس کے اثرات سے کوئی بھی مستفید نہیں ہو رہا، اس قدرتی قانون کو مختلف رنگوں میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کا اصل رنگ بھی کوئی تسلیم کرنے کے لیے رنگدار عینک ہی پہن کر فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ بھی مخصوص رنگ کی آمیزش سے متاثرہ قرار دیا جائے گا، اس لیے قدرتی قانون کے نفاذ کے لیے وہ ماحول اور افراد ہی میسر نہیں جس کی بنیاد ابتدائی طور پرہی رکھی جا سکے۔

پارلیمانی اور عوامی خود مختاری کا وہی امتزاج دیکھا جا رہا ہے جب مقننہ کی آئینی تبدیلی سامنے آنے سے آئینی طاقت کو تصور کر کے اس کو ٹھوس قانون کے اصولوں پر مرکوز کیا گیا تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے قانون ساز اداروں میں کس طرح آئینی سازی کی جاتی ہے، کس طرح اقلیت کو اکثریت اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، ایسے قوانین بنا دیے جاتے ہیں جن پر آنسو بہاتے ہوئے کمزور ہونے کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے تو پھر ایوان کی بالادستی تو کبھی بھی نہ رہی کہ عوام کی طاقت سے عوام کے اداروں کو مضبوط بنایا جا سکے، آئین میں سقم اس قدر ہیں کہ جب بھی دقت درپیش ہوتی ہے تو عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے کہ آپ ہی اس کی تشریح کر دیں۔

قانون ساز ادارے، ان اداروں کے پاس جاتے ہیں جنہیں قانون بنا کر عمل درآمد کے لیے بنایا گیا لیکن جب آئین ساز ادارہ سقم کو دور کرنے کے بجائے ایوانوں کو بالادستی کے مینار پر نہیں بٹھانا چاہتا تو اس کا رخ ریاست کے دوسرے ستونوں کی جانب ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد کہ ان کا ہر فیصلہ تسلیم کرنا خود اس ادارے کے لیے بھی لازم ہوجاتا ہے جو ملکی آئین سازی کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔

سیاسی جماعتوں کو قدرتی آئین کے بجائے انسانی آئین کے اس فلسفے پر یقین ہے کہ اگر پورے آئین میں کسی دوسرے چیز سے بڑھ کر ایک چیز جو واضح اور نمایاں ہے تو اس حقیقت کو ہی تسلیم کر لیں کہ عوام ہی ریاست کے مالک ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، کم ازکم وطن عزیز کی تاریخ میں ایسا دیکھنے میں آیا کہ تاریخ کے ایسے فیصلے جو آئین ساز اداروں نے کرنے تھے انہیں دوسری قوتوں نے تسلیم کرائے اور المیہ یہی رہا ہے کہ اس جانب رخ کرنے والے ہی دراصل سیاست کے وہ رہبران تھے جو آئین ساز اداروں کی بالا دستی کے لیے حلف اٹھاتے اور پھر توڑتے رہے۔

قدرتی قانون کیا ہے، اس پر ایک ایسی بحث ہو سکتی تھی اگر ملت واحدہ کا تصور ہم سب میں یکساں ہوتا، ہمارا قانون اور آئین اس سے کوسوں دور ہے، انسانی خواہشات پر مبنی آئین نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ترمیمات کو لوگوں کی مرضی کے جائز اظہار کے طور پر برقرار رکھا ہوا اور اسے ہی عوامی حاکمیت کی بالادستی قرار دے کر اس کی توثیق کی جاتی ہے، ایک آئین سے دوسرے آئین میں تبدیلی، چاہے حقیقی آزادی میں تاریخی تبدیلی کے طور پر اہم کیوں نہ ہو، ترمیمی عمل کے ذریعے آئینی تبدیلی کے حوالے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پہلی تبدیلی عوامی خود مختاری کے ذریعے پارلیمان کی جگہ لے کر آئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments