غلاموں کے گورے تاجروں کی اولاد کی افریقیوں سے معافی


آج یونیٹیرین چرچ میں‌ بک کلاس کے بجائے ایک گھنٹے کی ڈاکیومینٹری دکھائی گئی۔ ”دا ٹریسز آف دا ٹریڈ“۔ جب ڈاکیومینٹری ختم ہوئی تو میری آنکھوں‌ میں‌ آنسو تھے اور دل آہستہ آہستہ دھڑک رہا تھا۔ کتنے سارے لوگوں‌ نے اس دنیا میں‌ کتنا مشکل وقت دیکھا، کتنی قربانیاں‌ دیں۔ انسان نے دوسرے انسان پر کتنا ظلم کیا ہے؟ سر گھما کر دیکھا تو باقی سارے لوگوں‌ کے چہرے بھی ستے ہوئے تھے، کچھ ٹشو پیپر سے ناک صاف کررہے تھے، کچھ سکتے میں‌ تھے اور کچھ کے چہروں پر آنسو صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ امریکہ میں‌ غلامی کی تاریخ امریکہ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

کٹرینا براؤن کی ایک انتہائی اداس لہجے میں‌ بیان کی ہوئی یہ کہانی ڈی وولف فیملی کی کہانی ہے جو کہ غلاموں‌ کی تجارت میں‌ سب سے آگے تھی۔ کہنے لگیں‌ کہ لاشعوری طور پر ہمیں معلوم ہی تھا لیکن یہ جان کر ہمیں‌ افسوس ہوا کہ ہماری فیملی غلاموں‌ کی تجارت میں‌ امریکہ میں‌ سب سے بڑی تھی۔ ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کی فیملی کے پاس بہت پیسہ ہے، ان کے پاس جائداد ہے اور تقریباً سارے الیٹ یونیورسٹیز سے تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کی نئی نسل کے افراد سارے ملک کے مختلف علاقوں سے جمع ہوئے اور انہوں‌ نے اپنی فیملی کی تاریخ پر خود تحقیق کی جس میں‌ وہ کیوبا اور گانا تک گئے، تمام دستاویزات کا جائزہ لیا۔ وہ اس سفر میں‌ بہت سارے لوگوں‌ سے ملے جن کا انہوں‌ نے انٹرویو کیا۔ گھانا میں‌ جہاں‌ غلاموں‌ کو جہازوں‌ میں‌ سوار کیا جاتا تھا، اس ساحل پر کھڑے ہوکر انہوں‌ نے اپنے آبا و اجداد کے بارے میں‌ سوچا۔

گھانا میں‌ اس ڈنجن کے اوپر ایک چرچ بنا ہوا تھا، یہاں‌ ان لوگوں‌ کو لاکر بیپٹائز کیا جاتا تھا اور پھر ان کو عیسائی بنا کر ایک نیا نام دے کر ایک لمبے پانی کے سفر پر امریکہ کی جانب روانہ کیا جاتا تھا۔ لاکھوں‌ لوگوں‌ کو غلام بنایا گیا، کافی سارے اس مشکل سفر میں‌ جان سے بھی گئے۔ ڈی وولف فیملی کے نئی نسل کے افراد ان رسیوں‌ اور ہتھکڑیوں‌ کو دیکھ کر ایک صدمے سے دوچار تھے جن سے ان کے اسلاف نے دوسرے انسانوں‌ پر ظلم ڈھائے۔

سوچنے کی بات ہے کہ وہ اتنے وسیع القلب ہیں‌ کہ انہوں‌ نے اس بات کو قبول کیا کہ ان کے بڑوں‌ نے غلط کام کیے اور وہ ان کاموں‌ کی معافی کے طلب گار ہیں۔ آپ کو دنیا میں‌ ایسے بھی لوگ ملیں‌ گے جو اپنے بڑوں‌ کے کالے کاموں‌ پر پردہ بھی ڈالتے ہیں بلکہ ان کاموں‌ کو اچھا بھی ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اپنے ساتھ ایسا ہوتا تو ان کے ہوش ٹھکانے آتے۔

سفید فام آدمی کے ضمیر پر ایک بوجھ ہے۔ ڈی وولف فیملی کے انتہائی تعلیم یافتہ اور پرویلجڈ افراد اس سفر پر نکلے تو ایک گھانا کے کالے آدمی نے چبھتا ہوا سوال داغا کہ کیا اس حلقے میں‌ بیٹھ کر آپ خود کو ہم سے بہتر انسان سمجھتے ہیں۔ انہوں‌ نے دیانت دارانہ جواب دیا کہ نہیں اور کہا کہ امریکہ کے جنوبی علاقوں میں‌ پلنے بڑھنے کے دوران میرے ذہن میں‌ یہی بٹھایا گیا تھا کہ ہم باقی انسانوں‌ سے بہتر ہیں۔ میں‌ نے خود کو تعلیم یافتہ بنا کر، دنیا کا سفر کرکے اور اس کے دیگر انسانوں‌ سے ملکر اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ اس احساس پر قابو پاسکوں‌ کہ میں‌ باقی انسانوں‌ سے بہتر ہوں۔ بچپن میں‌ سکھایا ہوا سبق انسان کے دماغ سے مکمل طور پر کبھی دور نہیں‌ ہوسکتا لیکن ہمیں‌ کوشش کرتے رہنا ہوگی۔

گھانا میں‌ ہر سال ایک فیسٹول ہوتا ہے جہاں‌ لوگ جمع ہوتے ہیں، دریا کے کنارے گھانا کے قبائلی پتے زمین پر مار مار کر لوگوں‌ پر سے گذرے ہوئے وقت کے زخم بھرنے کے لئے ان پر پھیرتے ہیں، یہ ان کی کوئی رسم ہے۔ ڈی وولف فیملی کے افراد نے آگے بڑھ کر اس آدمی سے کہا کہ آپ ہمارے اوپر بھی یہ رسم کریں۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ ہاں‌ میں‌ ضرور کردوں‌ گا لیکن آپ لوگ بھی اپنے بزرگوں‌ کے پاس کیوں‌ نہیں‌ جاتے جو آپ کے لئے ایسا کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments