عمران خان کے بکھرے خیالات کا حتمی ”عنوان“ کیا ہو گا؟


کیا سابق وزیر اعظم عمران خان ”اسلامی انقلاب“ کا نعرہ لگا سکتے ہیں۔ ؟ جی ہاں ایسا ممکن ہے۔ ریاست کو ”ریاست مدینہ“ کے طرز پر ڈھالنے کے دعوے اور نعرے اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں یا نہیں اس بحث سے ہٹ کر اگر بات کو آگے بڑھایا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے بکھرے ہوئے نظریات و خیالات کو اب تک کوئی حتمی ”عنوان“ نہیں دے سکے ہیں جبکہ وہ ”امر بالمعروف“ اور ”شب دعا“ جیسی خالصتاً مذہبی اصطلاحیں استعمال کرچکے ہیں۔

سنجیدہ حلقوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ”انھیں جو پٹی پڑھا دی جاتی ہے وہ اس کی گردان شروع کر دیتے ہیں“۔ بلا شبہ پاکستانی سیاست میں ”مذہبی کارڈ“ کا استعمال کسی بھی قسم کی ”قیادت“ کو مقبولیت کی بلند ترین سطح پر پہنچا دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں مذہبی کارڈ کی سیاست ”امریکہ“ کو بھی لبھاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے ایک جامع ”بیانیہ“ تشکیل دینے کے لیے مصروف عمل ہیں اس مقصد کے لیے وہ اب تک متعدد جلسے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں رچا چکے ہیں جس میں وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے نظر آئے ہیں جو کبھی ”بیرونی سازش“ سے شروع ہو کر ”اسٹیبلشمنٹ“ تک پہنچتے ہیں تو کبھی وہ ”عالمی سازش اور اندرونی کردار“ کا رونا رونا شروع کر دیتے ہیں، بظاہر وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے مخالفین کا ذکر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جبکہ ان کا ”انداز بیاں“ کسی بھی امر کو مخفی یا مبہم رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

بہر کیف سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے خلاف نئی مخلوط حکومت کو ”سیاسی مشکلات“ سے دوچار کرنے کے لیے اسلام آباد کی طرف ”لانگ مارچ“ کا اعلان کر چکے ہیں جس کی حتمی تاریخ کا اعلان ابھی ہونا باقی ہے لیکن اتنا ہے کہ وہ اس لانگ مارچ میں 20 لاکھ افراد کا ”جم غفیر“ لگانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ اس کے لیے ان کی جانب سے ”تبلیغی مہم“ بھی شروع کردی گئی ہے۔ اس ضمن میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ”مختلف مکاتب فکر کے“ علمائے کرام ” نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد لانگ مارچ کی حمایت کر دی ہے“ ۔

اس ضمن میں ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ ”علمائے کرام“ نے پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے پیچھے ”بیرونی سازش“ کی تحقیقات کے لیے ”عدالتی کمیشن“ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اخباری خبر میں جن علمائے کرام کے نام ظاہر کیے گئے ہیں ان میں صاحبزادہ عبد الخیر زبیر، محمد اجمل قادری، ثروت اعجاز قادری، صاحبزادہ حامد رضا، مولانا گل نصیب، ڈاکٹر سبیل اکرام، ناصر شیرازی، مولانا شجاع الملک، ڈاکٹر احسان دانش اور ضیا اللہ شاہ بخاری سمیت دیگر شامل ہیں۔

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سینیٹر اعجاز احمد چوہدری اور سابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کے درمیان ہونے والی مختلف ملاقاتوں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ان ملاقاتوں میں علمائے کرام کی طرف سے پی ٹی آئی حکومت کو سازش کے ذریعے ختم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اس عمل کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد کی منظوری دی گئی۔

اس قرارداد میں کہا گیا کہ ”پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے اور عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق منتخب ایوان کے ذریعے ان اختیارات کا استعمال کریں“ ۔ جبکہ اسی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”سابق وزیر اعظم عمران خان نے بطور وزیر اعظم اسلام کے تحفظ کے لیے اور دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے خلاف انتھک کام کیا ہے“ ۔

پی ٹی آئی کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے حوالے سے مذکورہ بالا دعوے کی روشنی میں یہ بحث پھر اسی نقطہ پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے بات شروع کی گئی تھی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان خان اپنی سیاست میں ”مذہبی کارڈ“ کے استعمال کو جائز قرار دینے کے لیے نہ صرف علمائے کرام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی ”مذہبی عقیدت“ کو مستند بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا ”سیاسی نوحہ“ ایک ”نئی تحریک“ کو جنم دے سکتا ہے جسے ”اسلامی انقلاب“ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو ”حقیقی آزادی“ سے ”حقیقی مقصد“ یعنی ”پاکستان کا مطلب کیا“ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

بہر کیف ایسے میں اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگلے عام انتخابات میں سابقہ حکمران جماعت پی ٹی آئی مذہبی جماعتوں اور کرداروں کے ساتھ مل کر کوئی ”نیا انتخابی اتحاد“ بنا سکتی ہے جسے کسی حد تک ملک بھر کی ”خانقاہوں اور پیروں“ کی بھی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جو کہ پہلے بھی کسی نہ کسی صورت میں پی ٹی آئی کو حاصل ہے جس میں جنوبی پنجاب سے مخدوم شاہ محمود قریشی اور سندھ سے ”پیر صاحب پگاڑا“ قابل ذکر ہیں۔

تاہم ایسے کسی بھی سیاسی و انتخابی اتحاد کے لیے ایک منفرد اور پرکشش نعرے کی ضرورت پیش آئے گی جو یقیناً اسلامی انقلاب ”کا نعرہ ہو سکتا ہے اور اس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کے بکھرے ہوئے نظریات و خیالات کو ایک حتمی“ عنوان ”بھی میسر آ سکتا ہے۔ کیا اس بحث کے“ نتیجہ ”پر کسی قسم کا کوئی شک کیا جاسکتا ہے، جی ہاں کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے قطعی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments