سری لنکا میں اقتصادی بحران کی وجہ قرضے، کووڈ یا غلط پالیسیاں؟

عائشہ پیریرا - بی بی سی نیوز، سری لنکا


سری لنکا
سری لنکا میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آنے کے بعد پیر کو وزیرِ اعظم مہندا راجاپکشے نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اُنھوں نے ملک کے صدر اور اپنے بھائی گوتابایا راجاپکشے کو اپنا استعفیٰ بھجواتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے ملک کے حالات میں بہتری آئے گی۔

اس وقت ملک سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔

لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

یہ احتجاج اپریل کے آغاز میں دارالحکومت کولمبو میں شروع ہوئے اور اب بڑھتے بڑھتے پورے ملک تک پھیل گئے ہیں۔

عوام میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہو جانے کے باعث غصہ ہے۔

اُنھیں گذشتہ برس کے مقابلے میں اب صرف خوراک کی مد میں 30 فیصد زائد ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔ دیگر اشیا کی مہنگائی الگ ہے۔

ملک میں ایندھن کی دستیابی بھی متاثر ہوئی ہے اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے نظامِ صحت بھی تباہی کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف اسلحے کے استعمال سے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد مظاہرین کے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔

سری لنکا

صدر راجاپکشے کی حکومت کے تقریباً تمام ہی وزرا نے استعفے دے دیے ہیں اور کئی ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو گئے ہیں تاہم صدر کا کہنا ہے کہ اُن کا اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

سری لنکا میں اقتصادی بحران کیوں ہے؟

سری لنکا کا بنیادی مسئلہ اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا تقریباً خالی ہو جانا ہے۔

یہ ملک درآمدات پر بڑی حد تک منحصر ہے تاہم اب یہ خوراک اور ایندھن کی مد میں ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہے۔

حکومت نے اس کا الزام کووڈ 19 کی عالمی وبا پر عائد کیا ہے جس کی وجہ سے سری لنکا کی سیاحت کی صنعت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ سیاحت سری لنکا کے لیے زرِ مبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین سال قبل ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں میں ہونے والے بم دھماکوں کے باعث بھی سیاح سری لنکا آنے سے خوفزدہ ہوئے۔

مگر کئی ماہرین کے مطابق اقصادی بے نظمی اس بحران کی وجہ ہے۔

سنہ 2009 میں 30 سالہ خانہ جنگی کے اختتامی عرصے میں سری لنکا نے غیر ملکی منڈیوں میں اپنی اشیا کی فروخت کے بجائے مقامی منڈیوں پر انحصار کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ برآمدات سے ہونے والی آمدنی کم رہی اور درآمدی اخراجات بڑھتے رہے۔

اب سری لنکا ہر برس برآمدات سے تین ارب ڈالر زیادہ کی درآمدات کرتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ‘غیر ضروری انفراسٹرکچر منصوبوں’ کے لیے چین سے بھاری قرضے لیے۔

سنہ 2019 کے اختتام پر سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 7.6 ارب ڈالر تھے جبکہ مارچ 2020 تک یہ ذخائر صرف 1.93 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔

سری لنکا

بدتر ہوتی صورتحال کے لیے کئی عوامیت پسند اقدامات کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

جب سنہ 2019 میں صدر راجاپکشے اقتدار میں آئے تو اُنھوں نے ٹیکسوں میں بھاری کٹوتی کا اعلان کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس اب زرِ مبادلہ خریدنے کے لیے پہلے سے کہیں کم پیسے ہیں۔

صدر راجاپکشے اور اُن کے نئے وزیرِ خارجہ علی صابری اب تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکسوں میں چھوٹ دینا ‘غلطی’ تھی۔

جب سنہ 2021 میں سری لنکا میں زرِ مبادلہ کی کمی بڑا مسئلہ بنی تو حکومت نے کیمیائی کھاد کی تمام تر درآمد پر پابندی عائد کرتے ہوئے کسانوں سے کہا کہ وہ قدرتی کھاد استعمال کریں۔

اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فصلوں کا نقصان ہوا۔ سری لنکا کو پھر خوراک باہر سے خریدنی پڑی جس کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر مزید دباؤ پیدا ہوا۔

تب سے حکومت نے تمام ‘غیر ضروری’ سامان کی درآمد پر پابندی کر رکھی ہے جس میں گاڑیوں سے لے کر کچھ اقسام کی غذائیں اور یہاں تک کہ جوتے بھی شامل ہیں۔

سری لنکا

ملک اپنی برآمدات میں اضافہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کر کے بھی کر سکتے ہیں مگر حکومت نے سری لنکن روپے کی قدر گرانے سے انکار کیے رکھا۔

بالآخر اس نے مارچ 2022 میں روپے کی قدر گرانے کا فیصلہ کیا تو ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر 30 فیصد کم ہو گئی۔

سری لنکا پر کتنا غیر ملکی قرضہ ہے؟

سری لنکا کی حکومت پر 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے۔ رواں سال اسے ان قرضوں کی مد میں سات ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے اور آئندہ برسوں میں بھی صورتحال ایسی ہی رہے گی۔

اپریل میں سری لنکن حکومت سات کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی قرض ادائیگی کرنے سے قاصر رہی۔ کریڈٹ ریٹنگز ادارے ایس اینڈ پی نے اسے ‘محدود دیوالیہ پن’ قرار دیا۔

آزادی کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سری لنکا اپنے قرض کی ادائیگی میں ناکام رہا۔

سری لنکا کو دیگر ممالک سے کیا امداد مل سکتی ہے؟

سری لنکا اس وقت اہم درآمدات مثلاً ایندھن وغیرہ کے لیے تین ارب ڈالر کے ہنگامی قرضوں کی تلاش میں ہے۔

عالمی بینک نے اسے 60 کروڑ ڈالر قرض دینے کا وعدہ کیا ہے۔ انڈیا نے 1.9 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے اور ممکنہ طور پر یہ اسے 1.5 ارب ڈالر مزید فراہم کرے گا۔

سری لنکا

اس کے علاوہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بھی ہنگامی پیکج کی کوشش کر رہی ہے۔

تاہم آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حکومت کو قرض کے حصول کے لیے شرحِ سود اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہو گا جس سے عوام کے روز مرّہ کے اخراجات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

سری لنکا کو چین کو 6.5 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان قرضوں کی ری سٹرکچرنگ پر مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔

چین نے سری لنکا کے روپے کو اپنی کرنسی رینمیبی میں تبدیل کر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی پیشکش کی تھی مگر اب کولمبو کے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر چین سری لنکا سے نالاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments