بند دماغ کی نفسیات


استاد محترم کے گیانی ہونے میں کیا شک ہے۔ معلومات اور مشاہدے کے امتزاج سے جنم لینے والے علم کو بصیرت کہتے ہیں۔ بصیرت ہمارے عمل میں منعکس نہیں ہو تو الماری میں رکھی بند کتابوں کے مترادف ہے۔ استاذی علم، بصیرت اور عمل کے ہر پیمانے پر کندن ہیں۔ پرکھوں نے بتا رکھا ہے کہ صوفی کو منازل سلوک کی تعلیم کرنے کا فرض نہیں سونپا گیا۔ گیانی کا منصب عوام کی تعلیم بھی ہے۔ سو اسی روایت میں استاد محترم کبھی کبھار کوئی سوال بھی پوچھ لیتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ طالب علم کی آزمائش اور تربیت مقصود ہے ورنہ سائل بہر صورت مسؤل سے کئی درجے بہتر جانتا ہے۔ اگلے روز تحریک انصاف کے کچھ حامیوں کے پیغامات نقل کر کے پوچھا کہ اگر یہ پیغامات واقعی حقیقی ہیں اور کسی بھاڑے کے کارندے نے تخلیق نہیں کئے تو اس نفسیات کو کیا کہیں گے۔ پیغامات کا مضمون نقل نہیں کیا جا سکتا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ عمران خان کی حمایت میں خود اپنی ہی ذات کو انسانیت کی اسفل ترین سطح سے بھی نیچے گرایا گیا تھا۔

درویش کو حیرت نہیں ہوئی۔ 1930ء کی دہائی میں سٹالن کی تطہیری مہموں کے دوران کمیونسٹ اہلکار اسی پیرائے میں اپنی وفاداری کا یقین دلایا کرتے تھے۔ خود ہمارے ملک میں ایم کیو ایم کے خلاف جون 1992ء کا آپریشن ہوا تو اس جماعت کے کچھ ارکان نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایسا ہی انداز بیان اختیار کرنے کی کوشش کی۔ لاہور کے صحافیوں کو ایم کیو ایم کے طور طریقوں سے آگہی نہیں تھی۔ ابھی پہلے ہی رکن نے اپنے آپ کو گالی دی تھی کہ ایک صحافی نے کرسی اٹھا لی۔ ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ کہاں کی پریس کانفرنس اور کہاں کا حلف وفاداری ۔ اب نہ وہ لاہور رہا اور نہ سیاست میں ابتذال کی مزاحمت کرنے والے۔ ہمیں تو چند نالے عدم میں سپرد کئے گئے تھے، جہاں ممکن ہو، آوازہ لگائے جاتے ہیں۔

مارچ میں تحریک عدم اعتماد آئی تو متعدد حوالے دے کر عرض کی کہ پارلیمانی جمہوریت میں عدم اعتماد معمول کی کارروائی ہے۔ اسے سازش سمجھنا درست نہیں۔ اس خرابے میں تاریخ کی صدا دینا کار لاحاصل سہی۔ ایک حوالہ اور لیجئے۔ 1978-79ء کے موسم سرما میں برطانیہ صنعتی انتشار اور معاشی بحران کی زد میں آگیا۔ لیبر پارٹی کے جیمز کالیہان چار برس سے وزیراعظم چلے آرہے تھے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم سے زبان کی معمولی سی لغزش ہوئی۔ روزنامہ دی سن نے ’بحران؟ کیسا بحران؟‘ کی سرخی جما دی۔ بات تحریک عدم اعتماد تک پہنچ گئی۔ 28 مارچ 1979ء کو جیمز کالیہان 310 کے مقابلے میں 311 ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ 3 مئی 1979ء کو کنزرویٹو پارٹی کی مارگریٹ تھیچر انتخاب جیت کر وزیراعظم بن گئیں اور 1990ء تک اس عہدے پر متمکن رہیں۔ اس انتخاب میں برطانوی صحافت بھی منقسم تھی۔ ڈیلی مرر اور گارڈین لیبر پارٹی کی حمایت کر رہے تھے جبکہ دی سن ، ڈیلی میل اور ڈیلی ٹیلی گراف کنزرویٹو پارٹی کے حامی تھے لیکن کسی نے اس جمہوری اختلاف کو سازش قرار نہیں دیا۔ ایک ووٹ سے اعتماد کی تحریک ہارنے والی لیبر پارٹی کو اگلے اٹھارہ برس اقتدار میں آنا نصیب نہیں ہوا۔
جمہوریت محض حکومتی بندوبست کا نام نہیں، اس کی ایک ثقافت بھی ہے اور اس ثقافت کی قدر اولیٰ جمہور کی ریاست پر بالادستی ہے۔ تحکمانہ معاشروں میں ریاستی اختیار کی مدد سے رائے عامہ کو خاص سمت دی جاتی ہے۔ اس دستکاری کے آلہ کار سرکاری اہلکار ہوتے ہیں۔ ہر ریاست اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص پالیسی اختیار کرتی ہے اور اس پالیسی کو عوام میں قابل قبول بنانے کی غرض سے کچھ نعرے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ جمہوری قیادت پالیسی کی منشا سمجھتی ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں پالیسی تبدیل بھی کر سکتی ہے لیکن تحکمانہ معاشرے میں پالیسی اور نعرے کا فرق مٹ جاتا ہے کیونکہ پالیسی کے حقیقی محرکات سے ناآشنا اہلکار نعرے کا پس منظر سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کچھ مثالیں دیکھئے۔ 1925ء میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو برطانوی سرکار نے مقامی پولیس اور فوج کو سمجھا دیا کہ کمیونزم شیطان کا دوسرا نام ہے۔ جون 1941ء میں سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد برطانیہ نے سٹالن سے اتحاد کرنے میں کوئی توقف نہیں کیا لیکن ہمارا سرکاری ذہن آج بھی اشتراکیت اور اس کے ملحقات کو حرام کا درجہ دیتا ہے۔

1979ء میں پاکستان نے ضیا آمریت کے مفاد میں سوویت افغان جنگ میں حصہ لیا۔ اس سے مجاہدین اور پھر طالبان کے قصے برآمد ہوئے۔ 1989ء میں یہ قضیہ لپیٹ لینا چاہیے تھا لیکن ہمارے ریاستی ذہن اور اس کے دست نگر عناصر نے آج تک افغان پالیسی کے بنیادی نکات سینے سے لگا رکھے ہیں۔ حتیٰ کہ دہشت گردی اور عالمی تنہائی کا تاوان بھی انہیں اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ ٹھیک اسی طرح عمران خان کو ایک خاص بیانیہ اور جماعت مرحمت کی گئی تھی۔ یہ تجربہ معاشی، سیاسی اور سفارتی سطح پر ناکام ہو گیا۔ اب پالیسی بدلنے کا وقت ہے لیکن نعرے کے اسیر یہ حقیقت نہیں سمجھتے۔

پالیسی اور نعرے میں فرق سمجھنے کی صلاحیت جمہوری ثقافت میں جنم لیتی ہے۔ ریاستی بالادستی کے زیر اثر بند دماغ کی نفسیات جنم لیتی ہیں۔ اس نفسیات کی کچھ بنیادی خصوصیات ہیں۔ ایسا ذہن ابہام اور تشکیک کی بجائے قطعیت یعنی سیاہ اور سفید میں یقین رکھتا ہے۔ اپنے خیالات میں غلطی کے امکان کی بو پاتے ہی کچھوے کی طرح خول میں بند ہو جاتا ہے۔ اسے اپنی رائے پر غیر لچک دار یقین ہوتا ہے۔ اپنی رائے سے مخالف شواہد سامنے آنے پر ایسا ذہن تفکر کی بجائے جذبات کا سہارا لیتا ہے۔ ایسی نفسیات پالیسی کے متبادلات کی موجودگی تسلیم نہیں کرتی بلکہ یک نکاتی سچائی میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ قطبی سطح پر تقسیم ہو جاتا ہے اور مکالمے کی بجائے جنونی جانبداری جنم لیتی ہے۔ بند دماغ کی نفسیات میں انسانی احترام ختم ہو جاتا ہے اور معاشرہ پسماندہ رہ جاتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس موضوع پر ڈورس لیسنگ کا ناول The Golden Notebook دیکھ لیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments