تاریخ کا مطالعہ اور نتائج کا استخراج


دنیا کی تمام اقوام اور ممالک کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے، جو اس کے ارتقا اور فکری سفر کا پتہ دیتی ہے، اور جس کے مطالعہ سے ہم اس کے حال کی حالت اور مستقبل کی سمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ مگر تاریخ نگاری اگر ایک خاص اسلوب کی محتاج ہے، تو تاریخ کا مطالعہ بھی ایک خاص ذہنی حالت اور کیفیت کا متقاضی ہے۔ اگر ہم تاریخ کو بھی محض مذہبی کتب کی طرح عقیدت کے رنگ میں دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیں گے، تو ہم ایک فاش غلطی کے مرتکب ہو کر غلط نتائج کا استنباط کر ڈالیں گے، اور پھر ان غلط نتائج کی بنیاد پر ہم جو بھی فیصلے اخذ کریں گے وہ بھی درست نہیں ہوں گے۔

چنانچہ ایک تاریخی واقعے کی محض روایت کو قبول کرنا، اور اس کی بنیاد پہ اپنا نکتہ نظر مرتب کرنے کو کوئی بھی ذی ہوش اور صاحب علم انسان درست نہیں گردانتا، تاوقتیکہ قاری روایت کے ساتھ درایت کے فن سے بھی آشنا ہو، اور وہ اس واقعے کے تمام امکانی اور عقلی پہلوؤں سے بھی کما حقہ آگاہ رکھتا ہو۔ یہی وہ بنیادی سبب تھا جس نے اسلام کے اندر اسماء الرجال کے فن کی بنیاد ڈالی، اور حدیث، سیرت، تفسیر اور تاریخ میں ایک بنیادی عنصر کے طور پر شامل ہو گئی۔

تاہم اسما الرجال سے آگاہی بھی کل علم نہیں ہے، بلکہ یہ روایت کے راویوں کے حالات کی چھان پھٹک کا نام ہے، جس کے ذریعے روایت کی زنجیر کی ہر کڑی کی تحقیق کی جاتی ہے اور یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہر موخرالذکر راوی نے کیا مقدم الذکر راوی کا زمانہ پایا تھا، اور کیا ان دونوں کی سماعت آپس میں ثابت ہے یا مورخ نے ایک شخص کو عالم ارواح سے اٹھا کر دوسرے شخص کی محفل میں لاکر بٹھا دیا تھا۔ مثلاً اسلامی تاریخ میں خلیفہ چہارم کے بیشتر واقعات کے راوی حسن بصری نامی ایک شخص ہیں، لہذا ہمارے یہاں ان اقوال اور سلاسل تصوف کی کل بنیاد ہی ان دو افراد کے باہمی تعلق کی بنیاد پر قائم ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ حسن بصری نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی خلیفہ چہارم سے ملاقات نہیں کی۔ لہذا اب ہر وہ قول جس میں حسن بصری خلیفہ چہارم سے سماعت کر رہے ہیں، اس کی استنادی حیثیت شدید مجروح ہو کر سارے معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے، کہ مورخ نے جو حالات قلمبند کیے ہیں، وہ زمانہ کون سا تھا۔ کیونکہ مورخین کی ایک معتمد بہ تعداد زیادہ تر درباروں سے منسلک رہی ہے، لہذا ان کے ہاں ایسے واقعات ہی گھڑے جاتے یا توڑ مروڑ کر قلم برداشتہ کیے جاتے جو حاکم وقت کو پسند اور اس کی طبع نازک کے عین موافق ہوتے تھے۔

بصورت دیگر مورخ کو معاشی مشکلات کے علاوہ جان سے ہاتھ دھونے بھی پڑتے تھے۔ مثلاً اسلامی دور میں باقاعدہ تاریخ نویسی کا رواج بنو عباس کے دور میں پڑا، جو بنو امیہ کے حریف تھے۔ لہذا مورخین نے ایک بہت بڑی تعداد ان جھوٹے واقعات کی بیان کردی جو بنو امیہ کے ظلم و ستم پر مبنی تھی اور جس کا مقصد محض خلفائے بنو عباس کو خوش کر کے ان کا قرب اور مراعات کا حصول تھا۔ مگر ہم بنو امیہ کے دور کا مطالعہ غیر جانبداری سے کریں، تو وہ ایسا نہ تھا۔

تاریخ نگاری میں راوی کے مذہبی اور سیاسی رجحانات کا مطالعہ وہ بنیادی عنصر ہے، جس کی بناء پر ہم کسی واقعے کی صحت کو جان سکتے ہیں۔ اگرچہ ایک راوی کا کام غیر جانبدار رہ کر ٹھیک ٹھیک وقائع نگاری ہی ہے، مگر اس شرط سے متصف راوی شاید خال خال ہی پائے جاتے ہوں، ورنہ راویوں کی اکثریت ہر دور کے اندر مخصوص مذہبی اور سیاسی رجحانات کی متبع رہی ہے۔ کیونکہ یہی وہ داخلی عنصر ہے جس کی بنیاد پر دو مورخ ایک ہی واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جو ان کے مذہبی اور سیاسی رجحانات سے موافق ہو۔

اور اس میں بعض مرتبہ وہ اس حد تک آگے چلا جاتا ہے کہ اسے پورا واقعہ بیان کرنے کی بجائے اس کے ایک خاص حصے تک ہی محدود رہنا پڑتا ہے، کیونکہ مکمل واقعہ کو بیان کرنے میں اس کے اپنے نظریات کو گزند پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ چنانچہ جار اللہ زمحشری جو مشہور معتزلی مفسر ہیں، انہوں نے تفسیر قرآن کے اندر اس بات کا خاص اہتمام رکھا ہے کہ ہر واقعے یا آیت کی تشریح معتزلی نکتہ نظر سے کی جائے کیونکہ وہ ان کے نظریات کو ایسے ہی تقویت دیتی ہے۔

اسی سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بعض مرتبہ ایک مورخ ایک نظریہ یا نکتہ مرتب کرتا ہے، اور پھر اس کی تصدیق اور تحریک کے لئے واقعات کے اندر اپنی قوت استدلال سے ایسے رنگ بھرتا ہے، کہ قاری کا ذہن مورخ کا ہمنوا ہو کر ان کی تائید کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی مشہور مثال سید ابو الاعلی مودودی صاحب ہیں، جنہوں نے ایوب کی آمریت کے نقائص ثابت کرنے کے لئے امیر معاویہ اور خلیفہ ثالث کے ادوار کو ایوبی آمریت کی طرز پہ دور ملوکیت کہا اور اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں ان دونوں شخصیات کے ادوار کے قصص ادھورے، اور کانٹ چھانٹ کے بعد ایسے لکھے کہ ان دونوں کا زمانہ بھی ملوکیت ہی معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ لیکن چونکہ مولانا کو اپنی مقصد برآوری مقصود تھی، سو انہوں نے ویسے ہی کیا۔

پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، اس کا ہونا فی نفسہ ممکن بھی ہے، یعنی کیا انسانی عقل کے احاطے میں یہ بات آ سکتی ہے یا اس کا وقوع ناممکن ہے؟ جیسا کہ ہمارے یہاں مشہور روایت ہے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہ اپنے بیٹے یزید کو اٹھائے مسجد نبوی کے سامنے سے گزرے، تو اعلان ہوا کہ دیکھو جنتی انسان کے اوپر جہنمی انسان سوار ہے۔

تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ امیر معاویہ نے حیات نبوی میں جب شادی ہی نہیں کی تھی تو ایسے میں یزید کہاں سے آ گیا۔ اور سب سے آخر میں یہ کہ ہم اس تاریخ کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل کیا مرتب کرتے ہیں، تاکہ ہم ان اغلاط سے محفوظ رہ کر ایک بہتر مستقبل کی جانب گامزن رہ سکیں۔ کیونکہ تاریخ محض قصص سے حظ اٹھانے کا نام نہیں بلکہ خود احتسابی کا ایک باب ہے، جو ہمیں ماضی سے باخبر کر کے مستقبل کو نئے خطوط پہ استوار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments