عمراں خان کا بیانیہ مذہبی انتہا پسندی کی توسیع ہے


اس خاکسار نے خود کو کبھی اس قابل نہیں پایا کہ سیاست، سیاست دانوں اور سیاسی صورتحال پر کچھ بھی کہہ سکے۔ لیکن جب سیاستدان اور ان کی سیاست معاشرے کے نفسی سماجی Psycho-social تاروپود بکھیر نے کے درپے ہو تو اپنے اساتذہ پروفیسر خالد سعید اور ڈاکٹر اختر احسن کی پیروی اور علم نفسیات کے عظیم ترین معماروں سگمنڈ فرائڈ، ولہلم رائخ، ایرک فرام اور فرانز فینون کی روایت میں رہتے ہوئے موجودہ صورتحال پر تبصرہ لازم ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ جب معاملہ خالص سیاست کے دائروں سے باہر چھلکنا شروع ہو جائے اور سیاستدانوں کی حکمت عملی معاشروں اور اس میں رہنے والے افراد کی ذہنی حالت کو متاثر کرنا شروع کردے تو ہم ایسے نفسیات کے طالب علموں کا یہ فرض ٹھہرتا ہے کہ کچھ درسی باتیں عام فہم انداز میں گوش گزار کی جائیں ۔ اور اس بات سے قطع نظر اور ڈرے بغیر کہ یہ گزارشات پیش کی جائیں کہ سیاسی لوگ ہم ایسے طالب علموں کی سیاسی وابستگی کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا فرماتے ہیں۔ یہ خاکسار اپنی جس حیثیت سے یہ گزارشات پیش کرنے جارہا ہے وہ نفسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت ہے۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ میرے اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات ہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ یہ نظریات منجمد اور ساکت نہ رہیں اور ان میں تبدیلی کی گنجائشیں کبھی بھی ختم نہ ہوں۔ لیکن جس طرح میرے مذہبی اور سیاسی نظریات ذہنی مسائل کے شکار افراد کی مدد کرتے ہوئے کبھی درمیان میں نہیں آتے اسی طرح میں اپنی تحریری گزارشات سے بھی ان کو باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔

میں اجمالاً اور تفصیلاً یہ گزارش کر چکا ہوں کہ کسی معاشرے سے خودکش بمبار پیدا کرنا صرف ایک واقعہ ہرگز نہیں ہے۔ اس کے لیے انتہا پسند ذہن تیار کرنے پڑتے ہیں جو اپنے مزعومہ دشمن کی بیخ کنی کے لیے کسی بھی حد تک جانے پر قائل، آمادہ اور ہمہ وقت تیار ہو۔ انتہا پسندی پاکستان کی تاریخ کا کوئی ایک واقعہ نہیں تھا جو آیا اور گزر گیا۔ انتہا پسند ذہن سازی ایک طویل المدت اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جس نے معاشرے اور معاشرے میں موجود افراد کے ذہنوں پر دیرپا اور دوررس اثرات چھوڑے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ مقامی پاور سنٹرز نے بین الاقوامی پاور سینٹرز کے ساتھ مل کر تشکیل دیا تھا ۔

نفسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اصرار کے ساتھ عرض کرتا ہیں کہ ذہن صرف ایک ہی دن میں تشکیل نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی ان کو ایک ہی رات میں ان کو ان کی سابقہ حالت میں لوٹایا جا سکتا ہے۔ انسانی ذہن کے ساتھ جو بھی کارگزاری کی جاتی ہے یا وہ جن بھی تجربات سے گزرتا ہے ان سب کے اس پر دیرپا اور دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انتہا پسندی کے اس پروجیکٹ پر پاور سینٹرز نے برسوں محنت کی۔ اس طرح کے پروجیکٹس کی لمبی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے اہداف کا تعین ہوتا ہے۔ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے شراکت کار ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ اشتراک عمل کے کہے اور ان کہے سمجھوتے کئے جاتے ہیں۔ “کچھ لو اور کچھ دو” کی بنیاد پر شراکت کاروں کے ساتھ معاملات ہوتے ہیں. یہ شراکت کار مذہبی، لسانی، قومی یا علاقائی موضوعات پر معاشرے کو متحرک کر کے پاور سینٹرز کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کی تشکیل میں بھی اور سینیٹرز نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ بین الاقوامی پاور سینیٹرز نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے میں انتہا پسند ذہن تشکیل دیے۔

اس وقت نعرہ مذہبی تھا مگر مقاصد اقتصادی اور سیاسی تھے۔ روس کی شکست کے ساتھ وہ مقاصد پورے ہوئے اور بین الاقوامی پاور سینیٹرز نے ہاتھ جھاڑ کر اپنے گھر کی راہ لی لیکن وہ ذہن جسے صرف دشمن دیکھنے اور اس کا قلع قمع کرنے کی تربیت دی گئی تھی اب بیکار بھی تھا اور بے روزگار بھی۔ لہٰذا اس نے اپنے اندر دشمن ڈھونڈنے شروع کر دیے۔ وہ لوگ جنہیں مصنوعی اور نادیدہ دشمن دکھا دکھا کر، جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر، اور گھڑی ہوئی تاریخ پڑھا کر کسی مفروضہ دشمن سے ڈرا دیا گیا تھا اب اپنے ہی گلی محلوں میں دشمن کی کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ اجازت دیجئے کہ کہہ سکوں کہ اس ضمن میں پاور سنٹرز کی سب سے زیادہ مدد مذہبی لوگوں اور صحافیوں نے کی۔ صحافیوں نے افغانستان میں روس کی آمد کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی کو قرار دیا۔ جبکہ مذہبی رہنماؤں نے اس سے آگے بڑھ کر کمیونسٹ روس کی افغانستان آمد کو عالم اسلام کی یگانگت اور اس کی متوقع نشاۃ ثانیہ پر حملہ قرار دے کر پوری دنیا سے مجاہد بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ بین الاقوامی پاور سینٹر نے اس کام کے لیے ہتھیار اور رقوم فراہم کیں۔ پاکستان کی سرزمین ان مجاہدین کی تربیت گاہ ٹھہری اور افغانستان میں ان بھولے بھالے لوگوں نے پاور سینٹرز کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی جانیں گنوائیں۔ پاور سنٹرز کا مقصد پورا ہوا۔۔ آج ناحق خون دان کرنے والوں کو نہ پاور سینٹرز یاد کرتے ہیں اور نہ ان کو بھرتی کرنے والے مقامی شراکت کار۔۔۔

خدا جانے وہ رجسٹر (قاعدہ) کیا ہوا جس میں پشاور کے بھرتی کرنے والے ان معصوم لوگوں کے نام لکھتے تھے اور نام لکھنے کے بعد ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ مبارک ہو تمہارا نام آج القاعدہ میں درج ہو گیا۔ انتہا پسند ذہن نے افغانستان کی جنگ کے بعد مقامی دشمن ڈھونڈنے شروع کیے۔ اگلی دو دہائیاں اس انتہا پسند ذہن نے اپنے معاشروں سے دشمن ڈھونڈنے اور انہیں نیست و نابود کرنے میں لگا دیے۔ اپنی گزارش کے استحکام کے لئے عرض کرتا ہوں کہ 90 کی دہائی میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات میں وہی گروہ شریک تھے جن کو افغان جنگ کے لیے ذہنی، مادی اور عملی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ لیکن ان دو دہائیوں میں ان گروہوں کے ساتھ ساتھ مزید انتہا پسند گروہوں کی تشکیل جاری رہی۔ ان دو دہائیوں میں پاور سنٹرز صرف خاموش تماشائی بنے رہے اور عمران خان جیسے لوگوں کے کان میں یہ بات پھونکتے رہے کہ اگر ان گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کیے گئے تو کامیابی کے امکانات صرف چالیس فیصد ہیں۔ شاید یاد دھانی کے لیے ضروری ہو کہ عمران خان جو آج “کرپٹ” سیاستدانوں کے ساتھ مکالمہ کرنے پر تیار نہیں ہیں وہ ان “قاتل” گروہوں کے ساتھ مکالمہ کرنے اور پشاور میں ان کو دفتر کھولنے کی اجازت دینے کی بات کرتے رہے ہیں۔ پشاور کے ایک اسکول میں معصوم طلبہ کے بہیمانہ قتل کے بعد خوابیدہ مقامی پاور سنٹرز اسی طرح جاگے جیسے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد بین الاقوامی پاور سنٹرز جاگے تھے۔ لیکن خواب غفلت سے دونوں کا جاگنا صرف شدت پسندوں کے سر کاٹنے اور نافرمان دہشت گردوں کو سطح سے غائب کرنے تک محدود رہا۔ انتہا پسند اذہان کو تبدیل کرنا کبھی ان کا مطمح نظر نہیں رہا۔

یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے پاور سینٹرز نے یہ سیکھا کہ جنگ تو ضروری ہے مگر ایسی جنگیں جس میں اپنا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ اسی لیے دنیا بھر میں غیر ریاستی ملیشیا تشکیل دیے گئے ۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں میں ہونے والی جنگوں میں اس رجحان کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے ہے۔ اب جنگ کسی اور کی ہوتی ہے اور محاذ جنگ پر لڑتا کوئی اور ہے۔ اب جنگ چاہے ہتھیاروں سے لڑی جائے یا اقتصادی ہتھکنڈوں سے ۔۔۔ اصل کھلاڑی کو کھوجنا پڑتا ہے۔ آپ جارج بش اور ٹونی بلیئر کو گالیاں دے لیں مگر اصل کھلاڑی بڑی کمپنیوں کے بورڈز پر موجود وہ سرمایہ دار تھے جنہوں نے اپنی مقصد برآری کے لئے بش اور بلیئر کو اس کام کی ذمہ داری سونپی تھی ۔

واپس آیئے پاکستان۔۔۔ پشاور حملوں کے بعد انتہاپسند ذہن ایک مرتبہ پھر بے سمت ہو گیا۔ گزارش کیا جا چکا کہ اس ذہن کو ہر آن ایک دشمن چاہیے۔ آپ کی خدمت میں متعدد مثالیں عرض کی جا سکتی ہیں کہ جب یہ انتہا پسند ذہن کسی ایک دشمن کو ڈھونڈ لے اور واقعی اس کو اپنا دشمن سمجھ لے تو اس موضوع پر اس کے ساتھ پھر دلیل اور مکالمے کی افادیت باقی نہیں رہتی۔ آپ کہیں تو میں چودہ سو سالہ تاریخ سے بھی ایسے گروہوں کی مثالیں دے سکتا ہوں جن کو میں اور آپ کجا، صحابہ کرام کے دلائل بھی قائل نہیں کر سکے۔آپ کو یہ بھی دکھایا جا سکتا ہے کہ یہ گروہ بھی ایک ایسی ہی سیاسی صورتحال میں پیدا ہوئے تھے جو سیاسی عدم استحکام سے عبارت تھی۔ دو متحارب گروہوں کے لاینحل اختلافات کے نتیجے میں ایک تیسرا گروہ تشکیل پا گیا۔ اس تیسرے گروہ نے دونوں کو غلط کہا اور دونوں کے خلاف عملی اقدامات بھی کیے۔ یہ گروہ جس ذہنی کیفیت کے حامل افراد نے تشکیل دیا تھا وہ ذہن آج تک ختم نہیں ہو سکا۔ اور نہ آج کی تاریخ تک اس ذہن سے مکالمہ ممکن ہو سکا اور نہ وہ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر انسانی معاشروں کا حصہ بن سکا۔

دشمن کی تلاش کرتے اس انتہاپسند ذہن کو سیاسی استحکام کے ذریعے سے شانت کیا جا سکتا تھا۔ مگر سیاسی استحکام پاور سینیٹرز کے مفاد میں نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔ لہذا کل جو دشمن “کافر” تھا آج وہ دشمن “چور” کہلایا جا رہا ہے۔ جو شدت “کافر کافر” کے نعروں کی تھی وہی شدت “چور چور” کے نعرے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نعرے لگانے والے چہرے مختلف ہیں مگر ذہن وہی ہیں۔ جس طرح کل “کافر” ڈھونڈنے والوں سے مکالمہ ناممکن تھا اسی طرح آج “چور” تلاشنے والوں کے لیے بھی دلیل بے معنی ہے۔ “کفار” کا قلع قمع کرنے والوں نے کل جس طرح معاشرے کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے تھے اسی طرح آج چوروں کے درپے ذہن نے بھائیوں اور دوستوں سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ “کافر کافر” کے نعرے لگانے والے کچھ مخصوص شناخت رکھنے والوں کو نشانہ بنا رہے تھے مگر “چور چور” پکارنے والے اپنے سے مختلف ہر فرد کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ “کافر کافر” کے نعرے لگانے والے بظاہر مذہبی شناخت رکھتے تھے گو ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی اور دانشور بھی ان سے فکری طور پر متفق تھے۔ مگر اب “چور چور” کہنے والے تو خود ڈاکٹرز، انجینئرز، دانشور اور صحافی ہیں۔

گزارش یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ انتہا پسند دہشت کا بنیادی وظیفہ اپنی دگرگوں حالت کی ذمہ داری عائد کرنے کے لیے کسی دشمن کی تلاش ہے۔ انتہا پسند دشمن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر مخالف نہ ملے تو یہ گھڑ لیتا ہے۔ اگر مناسب سائز کا مخالف نہ ملے تو چھوٹے مخالف کو ضرورت کے مطابق بڑا کر لیتا ہے۔ اور مخالفین میں وہ عیب بھی ڈھونڈ نکلتا ہے جو اس میں نہیں ہوتے۔ بار دگر عرض کرتا ہوں کہ اس طرح کے انتہا پسند ذہن کو دو چیزیں بےحد راس آتی ہیں یا یوں کہیے کہ یہ ذہن دو بنیادی ستونوں پر استوار ہوتا ہے۔۔۔۔ ایک شدت پسند اختلافی ڈسکورس۔۔۔ اور دوسرے شعلہ بیان خطیب۔۔ آپ ماضی کی تحریکوں پر نظر ڈالیں جہاں یہ دونوں اجزائے ترکیبی موجود تھے دیکھیے وہاں کیا کیا کچھ نہ ہوا۔ جہاں صرف ایک جزو تھا وہاں نقصان شدت اور مدت دونوں حوالوں سے کم ہوا۔ آپ خطیب کو مصنف سے تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ انتہاپسندی ذہن کی وہ حالت ہے جہاں گہری گفتگو، دقیق استدلال، اور معاملے کا سنجیدہ فہم اپنا اثر اور افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ پیچیدہ معاملات کی انتہائی سادہ تشریح ان کو راس آتی ہے۔ دلیل کے بجاے مخالف کے لیے استعمال کی گئی گالی زیادہ حمایت سمیٹتی ہے۔ گالی جتنی بڑی اور حقارت آمیز ہوگی اثر اتنا ہی دوچند ہوتا ہے۔

مدتوں پہلے تشکیل پانے والے انتہاپسند ذہن کے ہاتھوں اب ایک نیا نعرہ ہے۔ یہ نعرہ پہلے نعروں سے زیادہ وسعت رکھتا ہے۔ اس نعرے سے معاشرے کا ہر فرد اپنا تعلق ماضی کے نعروں کی نسبت زیادہ آسانی سے جوڑ سکتا ہے اس لیے یہ زیادہ لوگوں کو متاثر اور قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ وقت سیاست کے میدان میں اور سیاسی تجزیوں میں ووٹوں کی تعداد گننے سے زیادہ اس ذہنی حالت کی طرف متوجہ ہونے کا مطالبہ کرتا ہے جو الیکشن کے نتائج سے بے نیاز معاشرے میں تحلیل اور تفریق کو ایسے مقام پر پہنچا دے گی جہاں سے واپسی جلد اور بغیر بے پناہ کوشش کے ممکن نہیں ہوگی۔ نفسیات کے طالب علم کے لیے انتخابات کے نتائج زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انتہا پسند ذہن کی کرشمہ سازی اب کس صورت میں جلوہ افروز ہوتی ہے، کیا رنگ دکھاتی ہے اور معاشرے کو اب کن بنیادوں پر مزید تقسیم کرتی ہے۔ سیاسی استحکام اس پھیلتے اور ہر آن بڑھتے ہوئے رجحان کا واحد حل ہے جس کی طرف صرف اور صرف سیاست دان لے کر جا سکتے ہیں وہ بھی صرف اس صورت میں اگر ان کو معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہوسکے تو ۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments