ہمارے باغیچے اتنے بے فیض کیوں ہیں؟


کبھی آپ نے ایسی زمینیں دیکھی ہیں جو سونا اگلتی ہوں لیکن وہاں غذائی قلت ہو۔ اجناس مہنگی ہوں۔ بچے، بوڑھے اور جوان سو سو کر دن کی رات کرتے ہوں۔ مشغلوں کی کمی ہو اور سب سے بڑھ کر روز کا دھنیا، پودینہ، پالک، ٹماٹر بازار سے بھاری داموں اور کم کوالٹی میں خرید کر مہنگائی کا رونا روتے ہوں۔ گھروں میں لان ہوں لیکن سجے سجائے۔ نہ کوئی کھدی کیاری، نہ تازہ سبزی، نہ گھر کے کسی فرد کی لان میں کوئی ذمہ داری، تنخواہ دار مالی، کم از کم کسی ترقی پذیر ملک کے باغیچے ایسے نہیں ہونے چاہیے۔

ہم ہزار روپے کلو لیموں لینے کو تیار ہیں لیکن اپنے گھر میں ایک پودا لگانے کی محنت نہیں کر سکتے۔ ہم دو سو روپے کلو ٹماٹر کا خرچا کر سکتے ہیں لیکن گھر میں کسی گملے میں کچھ پودے نہیں اگا سکتے۔ باسی سبزی میٹرو، ہائپر مارٹس اور ان جیسے دوسرے اسٹورز سے خریدنا اپنی شان سمجھتے ہیں لیکن خود اسی سبزی کو بیچنے میں ہماری شان گھٹتی ہے۔

ہمارے ہاں اور بے شمار شدتوں کے ساتھ اس مد میں بھی شدت ہے۔ غریب کے پاس جگہ اور پیسے کم ہونے کا بہانہ ہے۔ حالانکہ ان دونوں تنگیوں کے باوجود بوقت ضرورت اور خواہش انڈرائیڈ موبائل، آٹومیٹک واشنگ مشین، ریفریجریٹر، شادی بیاہ کے بے تکے خرچے، ڈش اور کیبل لگوانے کی گنجائش دو کمروں والے گھر اور بیس ہزار آمدنی والی جیب میں بھی نکل آتی ہے۔ دوسری طرف امیر اپنی کھلی جگہ میں روز مرہ کی سبزیاں اور پھل اگانا خلاف شان دکھتا ہے۔ وہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ اپنے سرکل میں پھر شیخیاں کیسے بھگارے گا کہ اس نے کون سا پودا کس ملک سے منگوا کے لگایا ہے۔ اس کا لان امپورٹڈ، مہنگے اور نایاب پودوں سے بھرا ہے۔ اور ان شاندار درختوں کے سامنے اسے سکھ چین، نیم، بکائن، شیشم، شہتوت وغیرہ بڑی بے چاری چوائس لگتی ہے۔ غریب غربا والی۔

پچھلے دنوں ایک جاننے والے کسی پودے کو منگوا کے دینے کا کہہ رہے تھے۔ صاحب خانہ کافی عرصے سے اس پودے کی تلاش میں ہیں۔ مولا نے شوق دے رکھا ہے اور کھلا صحن بھی۔ گاؤں میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا، بھائی جی! ٹھیک ہے وہ پودا بھی آ جائے گا لیکن آپ دو چار کیاریاں سبزی کی لگا لیں۔ تو مجھے یوں دیکھنے لگے جیسے پتہ نہیں کیا کہہ دیا ہو؟ اور سرسری سے لہجے میں بولے۔ ہاں لگا لیں گے ورنہ بازار سے سب کچھ مل ہی جاتا ہے۔

اور یہ حال گاؤں میں رہنے والے اکثر لوگوں کا ہے۔ جہاں کچی زمین ہے لیکن شہری رہن سہن اپنانے کی اندھی تقلید نے گھروں کے صحنوں سے کاشت کی زمیں چرانا شروع کر دی ہے۔ پکے اور جدید گھروں کی خواہش نے ہر آنگن میں اگنے والی مرچوں، لہسن، سبز پیاز، کی موجودگی کو چاٹنا شروع کر دیا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی کچن گارڈننگ کی چیزیں جو عام استعمال ہوتی ہیں اور گھروں کے کسی نہ کسی کونے میں ان کی گنجائش ہوتی تھی، اب نایاب ہو رہی ہیں۔ اب عجلت میں چٹنی بنانی ہو یا کسی اچانک مہمان کے آنے پر سلاد پتہ چاہیے ہو یا ہاتھ کے ہاتھ ساگ پر سبز لہسن کا بھگار لگانا ہو۔ سب لینے کے لیے دام خرچنے پڑتے ہیں۔ سبزی کی دکان تک دوڑ لگانی پڑتی ہے لیکن صاف ستھری، خوشبودار بغیر کیمیکل کھادوں کے ملتا کچھ بھی نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں جس گورنمنٹ کالونی میں رہتے تھے وہاں سب گھروں تک سڑک سے لمبی روش مرکزی دروازے تک آتی تھی اور جس کی دونوں اطراف پلاٹس تھے۔ یعنی بیچ میں سڑک اور اس سے نکلتی سرخ اینٹوں کی روشیں جو دونوں جانب سبز گھاس کے مستطیل قطعوں سے گھری ہوئی اور آمنے سامنے بنے گھر۔ وہاں پر ایک صاحب نے ایک پلاٹ پر سبزی لگا دی۔ فجر کے بعد اور دفتر واپسی کے بعد شام میں وہ اسی کے ناز نخرے اٹھاتے۔ ساتھ میں ان کے بچے بھی مشغول رہتے۔

کسی کو ہرا دھنیا چاہیے، ان کا گھر حاضر۔ کسی کے ہاں کوئی سبزی لا کے دینے والا نہیں۔ ان کا دروازہ بجا دو۔ کسی کے بچے کے میں اچانک پیٹ درد اٹھا لیکن پودینہ ختم ہے تو ان کی طرف دوڑو۔ دال پکی ہے لیکن تڑکے کے لوازمات نہیں تو ان سے درخواست کرو۔ بادل آئے اور بارش برسا گئے۔ دل پکوڑوں پر آ گیا تو ان کی تازہ، دھلی نکھری پالک موجود۔ جب اس سرگرمی کا فیض سب نے حاصل کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر نے ایک پلاٹ کو سبزیاں اگانے کے لئے مختص کر دیا۔ لو جی! سارا محلہ ہرا بھرا بھی ہو گیا اور روز مرہ کی سبزی کے لئے خود کفیل بھی۔ ہر وقت بینگنوں، لوکی، کریلوں، بھنڈی اور موسمی سبزیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا۔

یہ آج سے تیس سال پہلے کا قصہ ہے جب نہ مہنگائی کا جن تھا نہ آبادی کا سیلاب۔ نہ وسائل کی کمی کا خطرہ تھا نہ قحط جیسے حالات۔ بلکہ ملکی پیداوار بہتر ہی ہوتی تھی۔ پھر بھی وہ لوگ اگانے والوں میں سے تھے۔ پیدا کرنے والوں میں سے۔ جگہوں کا فائدہ اٹھانے والے۔ سیانے تھے زمین کا بوجھ بانٹتے تھے اور اپنی نوجوان اور بوڑھی ہوتی نسلوں کو مصروف رکھتے تھے۔

آپ پھول بھی لگائیں اور نمائشی پودے بھی۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں اگانے اور کرنے والے کتنے ہیں؟ اگر آپ ان میں سے ہیں جن کے پاس لان جیسی چیز کی عیاشی ہے اور آپ پھر بھی سبزی گھر پر نہیں اگاتے۔ آپ کے ہاں پھل دار درخت نہیں تو یہ بڑی زیادتی ہے۔ اور اگر آپ ان میں سے ہیں جو لان نہیں رکھتے، جگہ کی کمی کا شکار ہیں تو بھی اس خود ترسی سے باہر نکلیں کیونکہ آج کے دور میں ایسے طریقوں اور مہارتوں کی کمی نہیں جو ان عوامل کا علاج نہ کر سکیں۔ بات صرف نیت، شوق اور اس احساس کی جو بحیثیت شہری ہم سب پر لاگو ہوتا ہے۔

خدارا! اس زعم سے باہر نکلیے کہ ہر چیز پیسے سے خریدی جا سکتی ہے۔ آپ کروڑوں کے بھی مالک ہوں لیکن اگر جنس ہی نایاب ہو جائے یا وسائل ہی منہ موڑ لیں تو آپ کی بھاری جیب بھی منہ چڑانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments