ٹیکنالوجی، کتاب اور مہنگائی


لاہور میں پینتیسواں عالمی کتاب میلہ اختتام پذیر ہوا۔ سننے میں آیا ہے کہ لاہور کتاب میلے میں ساٹھ ہزار روپے پاکستانی، سکہ رائج الوقت، ایک بک سٹال کا کرایہ تھا اور بک سٹال کی جگہ انتہائی قلیل تھی سو بڑے پبلشرز کو ایک سے زیادہ سٹالز بک کروانے پڑے اور چھوٹے اور نسبتاً کم معروف پبلشرز کو انتہائی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس صورتحال سے غیر معروف اور نو آموز پبلشرز کی مشکلات، دل شکنی اور حوصلہ شکنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے اور دنیا سمٹ گئی ہے۔ دنیا اس وقت سمٹ کر اساسی عہد کے فلسفہ ”دنیا ایک گاؤں ہے اور ہر شخص ہمارا پڑوسی ہے جس کا ہمیں خیال رکھنا ہے“ کی عملی تفسیر بیان کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ گو کہ ہم ہر شخص تو کجا اپنے حقیقی پڑوسی کا خیال رکھنے پر بھی تیار نہیں ہیں لیکن دنیا واقعی ایک گاؤں بن چکی ہے۔

اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے صرف دنیا کو ہی سمیٹ کر ایک گاؤں کی شکل نہیں دی بلکہ بیشتر ایسی سہولیات کو جن کا آج سے چند برس پہلے یکجا ہونا بعید از قیاس تصور کیا جاتا تھا، سمیٹ کر انسان کے ہاتھ میں ڈال دیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ لباس کے ارتقا نے بیشتر جگہوں پر جھولی کا تصور ہی عنقا کر دیا ہے اس لیے اب جھولی پھیلانے کے بجائے ہاتھ پھیلانا مستعمل ہے اور پھل پک کر یا کسی معجزاتی ظہور کے نتیجے میں جھولی میں گرنے کے بجائے سیدھا ہاتھ سے کیچ کر لینا مہارت کا ثبوت ہے۔

دیکھیے کم علمی کتنی بھیانک چیز ہے کہ بندہ اپنے مقصد سے ہی ہٹ جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی ٹیکنالوجی اور کتابوں کی۔ ٹیکنالوجی کے معجزات نے انسانی زندگی کو بہت ہی آسان کر دیا ہے اور بہت سی انسانی ضروریات کی چیزوں کو ایک ہی جگہ مہیا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ کتاب بھی اب سمٹ کر پی ڈی ایف فارمیٹ میں موبائل میں سما گئی ہے۔ لیکن موبائل پر کتاب پڑھنے میں وہ مزہ اور لطف کہاں جو ہاتھ سے ورق تبدیل کرنے یا کتاب کو چھونے میں حاصل ہوتا ہے۔

فیسبک پر ریلز کے نام سے ایک نیا فیچر متعارف کروایا گیا ہے جہاں مختصر ترین ویڈیوز چند سیکنڈز میں ہی دیکھ کر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ان ویڈیوز کے ویوز ملاحظہ فرمائیں تو انتہائی حیرانی ہوتی ہے کہ آخر دیکھنے والے اتنے لوگ آتے کہاں سے ہیں جبکہ بک شاپس پر، لکھاریوں کی تحریروں پر، اتنی ویرانی ہوتی ہے کہ ویرانے کا سا سماں محسوس ہوتا ہے۔

ایسے وقت میں جب لوگ کتاب بینی سے دور ہو رہے ہیں، اکثریتی لوگوں کو کتاب خریدنا پیسے کا ایک ضیاع محسوس ہوتا ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ کتابوں کی سرپرستی کرے۔ یہی سٹالز جن کا کرایہ ساٹھ ہزار روپے طے کیا گیا تھا حکومت کم بھی کر سکتی تھی اور نسبتاً غیر معروف یا کم معروف پبلشرز کا حوصلہ بڑھایا جا سکتا تھا۔ لوگ پہلے ہی کتابوں کے نام سے بھاگتے ہیں، اکثر پبلشرز ویسے ہی کھینچ تان کر گزارہ کر رہے ہیں اگر ایسے میں ان کو اپنے کاروبار کی ترویج و ترقی کا سالانہ ایک موقع ملتا ہے اور وہ بھی مہنگائی یا قیمتوں کے عدم توازن کی نظر ہو جاتا ہے تو پبلشر حوصلہ نہ ہارے گا تو اور کیا کرے گا۔

لکھنے والے تو لکھتے رہے ہیں، لکھتے رہتے ہیں، لکھتے رہیں گے، لکھنے والوں نے لکھنے سے باز نہیں آنا۔ لکھاری معروف ہو یا غیر معروف، اسے لکھنے کا اگر چسکا لگ چکا ہے تو وہ لکھنے سے باز نہیں آئے گا، پھر چاہے پڑھنے والا اسے ایک بھی نصیب نہ ہو۔ بیشک ٹیکنالوجی لاکھ ترقی کر لے مگر کتاب کی افادیت اور نشہ کبھی بھی کم ہونے میں نہیں آئے گا۔ یہی شرط ٹیکنالوجی پر بھی عائد ہوتی ہے کہ بیشک پی ڈی ایف فارمیٹ سے اگلا کوئی فارمیٹ بھی آ جائے، لیکن وہ بھی رہے گا لکھاریوں کا ہی مرہون منت۔ لکھاری لکھیں گے تو ہی اسے یکجا کیا جا سکے گا اور پھر کسی نہ کسی فارمیٹ میں قاری تک پہنچایا جا سکے گا۔

میرا خیال ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ایسے میلے ہر تین مہینے بعد ہر بڑے شہر میں منعقد کیے جانے چاہئیں جہاں کتابوں پر پچاس فیصد تک رعایت ہو تا کہ کتاب زیادہ سے زیادہ فروخت ہو، لکھاریوں کو لکھنے کے لیے نیا ولولہ ملے، پبلشرز کی حوصلہ افزائی ہو، قاری کی کتاب بینی کی پیاس کی تسکین ہو اور ایسے عام لوگ جو کتاب بینی سے دور دور رہتے ہیں ان کو کتاب خریدنے اور پڑھنے کی جانب راغب کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments