پاکستان کا وہ علاقہ جہاں سرکاری ملازمین بطور مراعات بٹتے ہیں


پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تعینات لیویز فورس جس کی وجہ شہرت جہاں یہ ہے کہ یہ فورس بغیر مناسب ٹریننگ اور اسلحہ کے طالبان کے خلاف لڑی، وہاں ایک اسیکنڈل کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے جس سے بڑی سطح پر پردہ اٹھانا ابھی باقی ہے۔ اس فورس ( باجوڑ لیویز )میں سینکڑوں اہلکار ایسے ہیں جن کی تنخواہیں صاحب حیثیت افراد کی جیبوں میں جارہے ہیں۔ حکومتی ریکارڈ میں ایسے اہلکاروں کے محض نام رجسٹرڈ ہیں۔ ہیں تو یہ حکومتی اہلکار مگر ان کی خدمات ریاست کے بجائے صاحب حیثیت افراد کے حوالے کی گئی ہیں۔
 یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے لیکن کوئی اس پر نہیں بول رہا کیونکہ نچلے سطح سے لے کر اوپر تک سب کو اس بند بانٹ میں حصہ مل رہا ہے۔ مراعات کا نام دے کر سینکڑوں اہلکاروں کی آپس میں بند بانٹ کی گئی ہے۔ مراعات کا تو سنا تھا لیکن سرکاری اہلکاروں کی اس طرح بند بانٹ کی یہ شاید پہلی اور انوکھی مثال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ (ریکارڈ کے مطابق) ڈرائیورز ، جن کی خود کی پے اسکیل سپاہی سے کم ہوتی ہے، کو بھی کم از کم ایک سپاہی سے نوازا گیا ہے۔
طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ لیویز کے جو سپاہی سرکاری ڈیوٹی میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ نجی کاروبار یا ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں، ان کو چھٹی دینے یا برخاست کرنے کے بجائے “اردلی” کی کیٹگری میں رکھا جاتا ہے۔ اس کیٹگری کے سپاہیوں کی تنخواہیں لیویز/ پولیس کے سربراہان آپس میں بانٹتے ہیں جبکہ اہلکاروں کو اپنا کاروبار کرنے یا باہر جانے دیا جاتا ہے۔ اندازے کے مطابق ایک صوبیدار/ انسپکٹر کے پاس کم از کم ایک اردلی ضرور ہوتا ہے جبکہ اعلی افسران کے پاس 5 سے لے کر 20 تک اردلی ہوتے ہیں جن کی تنخواہیں ان کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اس حساب سے ایک اعلی افسر کی کمائی 5 سے 10 لاکھ ماہانہ تک بنتی ہے۔ یہ بندربانٹ صرف پولیس کے محکمے کے اندر تک محدود نہیں ہے۔ صوبے کے جتنے بھی با اثر افراد ہیں تقریبا سب کو حصہ مل رہا ہے۔ ذرائع سے جو ریکارڈ ملا ہے، اس کے مطابق بیوروکریٹس (جس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں شامل ہیں)، سیاست دان، صحافی،کلرک، ٹھیکیداران، ڈاکٹرز، ملکان، قبائلی سردار، ڈرائیور اور کلاس فور ملازمین تک کو بطور مراعات سپاہی دئیے گئے ہیں جن کی تنخواہیں وہ لے رہے ہیں۔
یہ صورت حال افسوس ناک یوں بھی ہے کہ امن و امان کی صورت حال بگڑتی جارہی ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں جن کی روک تھام کے لئے ان اہلکاروں کو تعینات کرنا چاہیے تھا اس کے بجائے وہ اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور ان کی تنخواہوں سے بااثر افراد کی جیبیں گرم ہورہی ہیں۔
باجوڑ میں اسٹریٹ کرائم کا یہ حال ہے کہ ڈی سی اور ڈی پی او کے دفتر کے سامنے سول کالونی سے 100 گز کے فاصلے پر بندوق کے نوک پر شہریوں کو لوٹا جاتا ہے۔ریاستی وسائل شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے مختص ہوتی ہیں نہ کہ اس سے کسی خاص طبقے کو فائدہ پہنچے اور شہری خوار ہوتے رہے۔
چونکہ اس حمام میں تقریبا سب ذمہ دار ننگے ہیں اس لئے کم از کم صوبے کی سطح پر کوئی بھی سرکاری وسائل کے اس بندر بانٹ کا خاتمہ نہیں چاہے گا۔ پولیس کے اندر سے کوئی اس کو نہیں روکے گا کیونکہ ان کو سب سے زیادہ حصہ مل رہا ہے۔ سیات دان اور عوامی نمائندوں کو بھی حصہ مل رہا ہے، صحافیوں کا کام بھی بنا ہوا ہے تو وہ کیونکر اس کا خاتمہ چاہیں گے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments