وزیر اعظم شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں پیشی: ’آپ عدالت کے اندر بھی وزیر اعظم ہیں ابھی حکم جاری کریں ۔۔۔‘

ترہب اصغر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام،، لاہور


وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اپنا اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ سنیچر کو عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ وہ سپیشل سینٹرل کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس، جبکہ نیب عدالت میں آشیانہ اور شوگر مل کیس میں پیش ہوئے۔

ویسے تو وہ شریف خاندان کے خلاف کیسز میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پیش ہوتے تھے۔ لیکن آج کی پیشی میں فرق یہ تھا کہ وہ اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول اور سیکورٹی کے ساتھ پیش ہوئے۔

صبح سات بجے جب میں ایف آئی اے کی عدالت کے باہر پہنچی تو سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی جنھوں نے عدالت تک جانے والا راستہ عام لوگوں کے لیے بند کر رکھا تھا۔

اپنی شناخت کروانے کے بعد مجھے آگے چند سکیورٹی افسران کے پاس بھیجا گیا جو غالباً وزیر اعظم کے سکیورٹی پروٹوکول کا حصہ تھے۔ نام پوچھنے کے بعد انھوں نے میرا نام لسٹوں میں ڈھونڈنا شروع کیا اور لسٹ دیکھنے کے بعد مجھے جانے دیا۔

اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں شاید عدالت نہیں بلکہ وزیر اعظم ہاؤس میں داخلے کے آئی ہوں۔

bbc

گھنٹہ ڈیڑھ عدالت کے مرکزی دروازے پر تمام صحافی کھڑے رہے کیونکہ انھیں کہا گیا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے کہ آپ لوگ اندر جائیں۔ عام طور پر عدالتوں میں صحافیوں کی آمد و رفت پر پابندی نہیں ہوتی۔

صحافی اکیلے باہر نہیں کھڑے تھے وکیل اور ملزمان بھی عدالت کے باہر ہی موجود تھے۔

کچھ دیر بعد مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ عدالت پہنچے تو انھوں نے سکیورٹی افسران سے معلوم کیا کہ آپ صحافیوں کو اندر کیوں نہیں جانے دے رہے جس پر انھوں نے جواب دیا کہ آپ کو کس سے حکم ملا ہے؟ جس پر انھیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

عطا تارڑ کہنے لگے کہ ’اگر صحافی عدالت کے اندر نہیں جائیں گے تو میں بھی مرکزی گیٹ پر بیٹھا ہوں اور کوئی اندر نہیں جائے گا۔‘

بحث مباحثے کے بعد ہم لوگ عدالت میں داخل تو ہو گئے لیکن اس سے آگے کمرۂ عدالت کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف بھی وہاں پہنچ گئے۔ چند لمحے انتظار کرنے کے بعد کمرۂ عدالت کا دروازہ کھلا اور سب اندر داخل ہوئے۔

عطا اللہ تارڑ

جس کے بعد جج صاحب کمرۂ عدالت میں پہنچے تو عدالت میں کیسز میں پیش ہونے والے ملزمان کی حاضری لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی ملزم عدالت میں موجود نہیں تھا۔

جس پر عدالتی عملے کی جانب سے بتایا گیا کہ ملزمان اور وکیل سکیورٹی کی وجہ سے عدالت کے اندر نہیں آئے ہیں۔تاہم وہ سب عدالت کے باہر موجود ہیں۔

اس پر جج صاحب نے عدالت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’یہ کیسی سیکورٹی ہے۔۔۔ میری گاڑی کو بھی روکا گیا۔‘ جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ’جج صاحب میں تو خود باہر تھا اور صحافی بھی اندر نہیں آ پا رہے تھے۔‘

معزم جج صاحب نے کہا کہ ’آپ عدالت کے اندر بھی وزیر اعظم ہیں آپ ابھی حکم جاری کریں کہ یہ کیوں ہوا اور نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

اب ایس پی سیکورٹی کو کمرۂ عدالت میں طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ ذمہ داران افسران کے بارے میں بتائیں کہ یہ کس نے اور کیوں کیا؟ اس معاملے پر انھوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی والے آئے ہیں اور اب معافیاں مانگ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شہباز شریف: پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ملک کی وزارتِ عظمٰی تک کا سفر

شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد

نیب نے حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کر لیا

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انھیں ایک بار معاف کر دیں اور میری درخواست ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کے معاملے کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنائیں۔ جس پر معزز جج صاحب نے سکیورٹی انچارج کو کہا آئندہ سکیورٹی کا پلان بنائیں اور وکلا، ملزمان اور صحافیوں کو نہ روکا جائے۔‘

اس معاملے کے بعد شہباز شریف کے وکیل امجد پروپز نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ’شہبازشریف کا شوگر ملز سے کوئی تعلق نہیں رہا اور کسی گواہ کا ایک بیان بھی یہ نہیں کہتا کہ شہباز شریف کبھی کسی شوگر مل کی مینجمنٹ کا حصہ رہے ہوں جبکہ بنک اکاؤنٹس جو کھولے گئے ان کے کھلوانے میں کبھی شہباز شریف حصے دار نہیں رہے۔‘

’کہا جاتا رہا بوریوں میں پیسے لے کر جائے جاتے تھے، منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ کہاں ہیں ثبوت کہ منی لانڈرنگ ہوئی۔ یہ صرف جھوٹے الزامات لگائے گئے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

امجد پرویز نے کہا کہ ’شہباز شریف کے اکاؤنٹس میں ایک روپیہ بھی نہیں آیا۔ چپڑاسی والا ہو یا کوئی صفائی والا اگر اس کے اکاؤنٹ میں آنے والے پیسے ناجائز نہیں تو یہ جرم نہیں ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے جو کیس بنایا گیا ہے وہ صرف سیاسی کیس ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’نیٹ فلیکس پر بڑی فلمیں آتی ہیں۔ لگتا ہے یہ ایف آئی آر کسی فلم سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔‘

’کبھی تنخوا نہیں لی‘

اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور بولے کہ ’میں دس سال سے زائد عرصے وزیر اعلیٰ رہا ہوں لیکن آج تک میں نے تنخواہ نہیں لی جو ساٹھ کڑور بنتی ہے۔ تاہم جو سفر کیا اس کی ٹکٹیں خود خریدیں سب ریکارڈ ہیں میرے پاس۔ سرکاری گاڑیاں استعمال کرتا ہوں لیکن پیٹرول اپنے پیسوں سے ڈلواتا ہوں۔ میں اپنی ساکھ خراب کرنے کے لیے یہ کیوں کروں گا؟‘

BBC

اس دوران کمرۂ عدالت میں بیٹھے حمزہ شہباز اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ ڈھائی گھنٹے گزرنے کے بعد ایڈوکیٹ امجد پرویز نے کہا مجھے اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے دو تین گھنٹے مزید چاہیے۔

جبکہ ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ مجھے اتنا وقت نہیں چاہیے۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بار بار سماعت کے لیے پیش نہیں ہو سکتے ہیں۔ جس پر جج صاحب نے کہا کہ آپ درخواست دیں تو پھر دیکھتے ہیں۔ جس کے بعد عدالت میں وقفہ سماعت ہوا اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز وہاں سے نیب عدالت کے دوسرے کیسز میں پیش ہونے کے لیے روانہ ہو گئے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور کچھ دیر دلائل چلنے کے بعد عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کر دی جبکہ سپیشل سینٹرل کورٹ نے سلمان شہباز ، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سماعت 28 مئی تک ملتوی کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments