افغانستان میں طالبان کا خواتین کو مکمل پردے کا حکم اور دیگر پابندیاں: ’اس نے میری طرف دیکھا نہیں لیکن کہا کہ تم بے شرم عورت ہو‘

سکندر کرمانی - بی بی سی نیوز، کابل


مولوی فاتح
مولوی محمود فاتح نے مرد دکانداروں کو نماز پڑھنے اور داڑھی بڑھانے کی اہمیت پر لیکچر دیا
اپنے لمبے سفید چوغوں میں طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر (یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی کو روکنے کی ذمہ دار وزارت) کے انسپکٹر ’اخلاقی پولیس‘ سے زیادہ فوڈ سیفٹی انسپکٹر طرح نظر آتے ہیں لیکن وہ اپنے سخت گیر نظریات کے مطابق افغانستان میں ایک نئی اور ’زیادہ اسلامی‘ شناخت میں ڈھالنے کی کوششوں میں سب سے آگے ہیں۔

ان کا کردار وسیع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

چند ماہ قبل کابل میں ایک کثیر المنزلہ شاپنگ سینٹر کے دورے کے دوران ان انسپکٹرز نے چیک کیا کہ آیا دکانداروں نے ایکسپائرڈ اشیا (جن کے استعمال کی آخری تاریخ گزر چکی ہو) تو نہیں رکھی ہوئیں۔ مگر یہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے دکانداروں کو خواتین والے پوسٹرز ہٹانے کی ہدایت بھی کی۔

تاہم گذشتہ ہفتے جب وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے انسپکٹرز بی بی سی کی ٹیم کے ساتھ یہاں دوبارہ پہنچے تو ابھی بھی خواتین کی تصاویر والے کچھ پوسٹرز یہاں دکھائی دیے۔

سب سے کم عمر ہونے کے باوجود ایک گول چہرے والے 25 برس کے مولوی محمود فاتح نے ہماری رہنمائی کی۔ مرد دکانداروں کے ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مولوی محمود فاتح نے نماز پڑھنے اور داڑھی بڑھانے کی اہمیت پر انھیں لیکچر دیا۔

انھوں نے برادرانہ انداز میں دکانداروں کو نصیحت کی کہ ’داڑھی رکھنا پیغمبر اسلام کی سنت پر عمل کرنا ہے۔‘

مولوی فاتح نے دکانداروں کو ہنستے ہوئے بتایا کہ داڑھی رکھنے کے اور ’فائدے‘ بھی ہیں۔

مولوی فاتح نے اپنے ساتھی انسپکٹرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی دو یا تین بیویاں ہیں۔ یہ طاقت کا منبع ہیں۔‘

مولوی فاتح اور ان کے چار ساتھیوں نے دکانداروں کو درپیش کسی بھی قسم کی مشکلات حل کرنے میں مدد کی پیشکش بھی کی۔

مولوی فاتح اور ان کے ساتھی

مولوی فاتح اور ان کے ساتھیوں نے دکان داروں کو درپیش کسی بھی قسم کی مشکلات حل کرنے میں مدد کی پیشکش بھی کی

جب ایک دکاندار نے ایک شخص کی شکایت کی، جس کا تعلق طالبان سے ہے، کہ وہ مفت موبائل فون کا مطالبہ کر رہا ہے تو مولوی فاتح نے اس کا فون نمبر لکھ کر اس کے بارے میں تفتیش کرنے کا وعدہ کیا۔

لیکن اس وزارت کے خواتین کے لباس کے حوالے سے نئے حکمنامے نے سب سے زیادہ توجہ اور تنقید حاصل کی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں اس وزارت نے ایک حکمنامہ جاری کیا، جس کے مطابق تمام خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے چہرے کو ڈھانپنا ہو گا۔ کوئی بھی خاتون جسے عوامی مقام پر اپنے کسی مرد رشتہ دار کے بغیر دیکھا گیا، اسے عدالت یا جیل بھیجا جا سکتا ہے۔

لیکن مولوی فاتح کے شاپنگ سینٹر کے لیکچر میں یہ موضوع زیر بحث نہیں تھا اور جب ہم نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم مردوں سے مردوں کے مسائل کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

اس شاپنگ مال کی سیڑھیوں کے ایک ستون کے ساتھ ایک چھوٹا سا صفحہ چپکا ہوا تھا، جس میں موجود دو تصاویر یہ بتاتی ہیں کہ اب خواتین کو کس طرح کا لباس پہننا چاہیے: ایک نیلے رنگ کا برقع اور دوسرا اسی طرح کا سیاہ لباس۔

اس صفحے پر یہ عبارت درج تھی: ’مسلم خواتین کو اسلامی پردہ کرنا چاہیے، یہ شریعہ کا حکم ہے۔‘

افغانستان ایک قدامت پسند ملک ہے اور یہاں بہت سی خواتین پہلے ہی برقعہ پہنتی یا اپنے چہرے کو ڈھانپتی ہیں۔ کابل جیسے شہروں میں خواتین صرف سکارف سے اپنا سر ڈھانپ لیتی ہیں جبکہ کچھ کووڈ سے بچنے کے لیے پہنے جانے والے ماسک کے سٹائل میں اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی ہیں۔

افغانستان اور دوسرے ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس نئے حکم نامے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں آیا جب ابھی تک نوعمر لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں اور بہت سی خواتین ملازمین کو اپنے دفاتر میں واپس نہ آنے کا حکم ہے۔

ابتدائی طور پر ’حجاب‘ سے متعلق نئے قوانین کا نفاذ نسبتاً سست دکھائی دیتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان جلد ہی بہت زیادہ سختی کریں گے۔ ٹی وی پر آنے والی خواتین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ آن ائیر آنے پر اپنے چہرے ڈھانپ لیں۔

شہر میں اپنے چہرے ڈھانپے بغیر خواتین کو دیکھنا اب بھی ایک عام سی بات ہے اور شاپنگ سینٹر میں موجود بہت سے افراد وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے انسپیکٹرز کے دورے کے دوران پریشان نظر آئے۔

مولوی فاتح نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم پردے اور بغیر پردے والی عورت کے درمیان فرق کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی عورت حد سے تجاوز کر رہی ہے تو ہم اس کے مرد سرپرست کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا اگرچہ ان کے ’حد سے تجاوز‘ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔

جب مولوی فاتح سے سوال کیا گیا کہ کیا وزارت کو یہ بتانے کا حق حاصل ہے کہ افغان خواتین کو کس طرح کا لباس پہننا چاہیے، تو مولوی فاتح نے جواب دیا کہ ’یہ وزارت کا حکم نہیں بلکہ خدا کا حکم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اخلاقی کرپشن کی اصل وجہ چہرہ ہے۔ اگر چہرہ ڈھکا نہیں ہوا تو پھر پردے کا کیا مقصد ہے۔‘

تاہم دنیا بھر کے زیادہ تر مسلمان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ عورت کو اپنا چہرہ ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔

طالبان

طالبان

شاپنگ سینٹر کے دورے کے بعد یہ انسپیکٹرز ایک پک اپ میں بیٹھ کر ایک بس سٹاپ پہنچے۔

یہاں انھوں نے یہ چیک کیا کہ کہیں مرد، خواتین مسافروں کے بہت زیادہ قریب تو نہیں بیٹھے اور کیا خواتین کو سیٹ دینے کی بجائے کھڑا تو نہیں رکھا گیا۔

نوے کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور اقتدار میں اس وزارت کی شہرت کافی خراب تھی، اور ’مجرموں‘ کو باقاعدگی سے سرعام مارا پیٹا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کی حامی خواتین کی وائرل تصاویر: کیا سر تا پا سیاہ برقع افغان کلچر ہے؟

’درزی نے کہا کہ میں بات کرنے سے پہلے اپنا چہرہ ڈھانپ لوں‘

’وہ کہتے ہیں ہمیں افغان خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن میں ڈرتی ہوں‘

مولوی فاتح نے ہمیں بتایا کہ اب ڈرائیوروں کی جانب سے بار بار ان کے حکم کی نافرمانی کرنے کی واحد سزا یہ ہے کہ ’انھیں ایک دن اور ایک رات کے لیے ہمارے دفتر لے جایا جاتا ہے اور نصیحت کی جاتی ہے، انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے الفاظ ہیں اور اگلی صبح ان سے گارنٹی لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

ہمارے سامنے انسپکٹرز لوگوں سے خاصے شائستہ اور نرم مزاج کے ساتھ پیش آئے۔ طالبان کی غیر موجودگی میں جب ہم نے لوگوں سے ان کے رویے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں اس ٹیم سے کوئی شکایت نہیں۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ طالبان تیزی سے اپنے جابرانہ انداز کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

لیلیٰ بسیم

لیلیٰ بسیم کہتی ہیں کہ اگر خواتین چہرہ ڈھاپنے کا حکم مان لیتی ہیں تو طالبان پھر خواتین کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا حکم نامہ جاری کریں گے

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی لیلیٰ بسیم حجاب سے متعلق حکم نامہ جاری ہونے کے فوراً امر بالمعروف و نہی عن المنکر وزارت کے اہلکاروں کی طرف سے روکی جانے والی ایک بس میں سوار تھیں۔

لیلیٰ بسیم نے ہمیں بتایا کہ ’دو خواتین نے برقعہ پہن رکھا تھا۔ باقی سب نے میری طرح کالے گاؤن پہن رکھے تھے جبکہ چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے۔ میں نے طالبان اہلکار کو بتایا کہ یہاں کوئی بھی پردے کے بغیر نہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ سُن کو وہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا نہیں لیکن کہا کہ تم بے شرم عورت ہو۔ یہ جمہوریہ افغان نہیں بلکہ اب اسلامی امارت ہے۔ اب تم وہ نہیں کر سکتی جو تم چاہتی ہو۔‘

لیلیٰ بسیم طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کی بندش کے خلاف بہت سے مظاہروں کی قیادت کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبان اہلکار نے ان پر ’امریکیوں‘ کے لیے کام کرنے اور ’امریکی ثقافت کے مطابق رہنے‘ کا الزام عائد کیا، جس پر بس ڈرائیور نے انھیں بحث نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

کچھ بس ڈرائیوروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ چست لباس زیب تن کرنے والی خواتین کو بس میں نہ بٹھائیں تاہم بس ڈرائیوروں کے مطابق صرف اپنا چہرہ نہ ڈھانپنے پر طالبان نے خواتین کو سفر سے نہیں روکا۔

گذشتہ برس اگست میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ابتدائی طور پر وہ لچکدار رویہ اپناتے اور نئے قوانین جاری کرنے سے گریز کرتے نظر آئے تاہم حالیہ مہینوں میں طالبان کے مؤقف میں سختی نظر آئی ہے۔

طالبان

طالبان

ملک میں جاری معاشی بحران کے باوجود سماجی پابندیوں کو سخت کرنا طالبان کی ترجیح دکھائی دیتا ہے۔

وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دوسرے احکامات کے مطابق پارک میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ دن مختص کرنا اور لمبے سفر پر خواتین کے اکیلے سفر پر پابندی شامل ہے۔

اس احکامات نے بہت سے افغان شہریوں کو اس بارے میں پریشان کر دیا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔

ایک بزنس مین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ (طالبان) نرمی سے شروعات کر رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ نوے کی دہائی کی طرح ہو جائیں گے۔‘

لیلیٰ بسیم بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر خواتین چہرہ ڈھاپنے کا حکم مان لیتی ہیں تو طالبان پھر کوئی نیا قانون لے آئیں گے اور خواتین کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا حکم نامہ جاری کریں گے۔‘

طالبان کی اقدار افغانستان کے قدامت پسند علاقوں میں رہنے والوں میں سے کچھ کے ساتھ ملتی ہیں جبکہ مسلم دنیا میں بھی بہت سے ایسے علما موجود ہیں جو سخت صنفی پابندیوں کی تبلیغ کرتے ہیں تاہم دنیا کے کسی اور ملک میں خواتین پر اس قسم کی پابندیاں نہیں جو طالبان نے عائد کر رکھی ہیں۔

وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے سے اخلاقی کرپشن کا خاتمہ کر رہے ہیں لیکن لیلیٰ بسیم کہتی ہیں کہ ’اصل اخلاقی کرپشن یہ ہے کہ آپ معاشرے کی آدھی آبادی سے اس کے حقوق چھین لیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments