قبل از اسلام کا عرب معاشرہ بمقابلہ بعد از اسلام کا ہمارا معاشرہ


ہمارے ہاں پڑھائی جانے والی تاریخ میں عرب کی تاریخ کو اسلام سے قبل والے زمانے کو زمانہ جاہلیت کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ بلاشبہ عربوں میں ایسی خرابیاں تھیں جنہیں اسلام نے آ کر نہ صرف درست کیا بلکہ بعض کو ختم بھی کر دیا۔ ہم نے عربوں کی ان صفات کا کبھی جائزہ نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے کسی واضح ہدایت کی عدم موجودگی کے باوجود ان میں موجود تھیں۔ ہم جس زمانے میں میں رہ رہے اگر اسے قبل از اسلام عرب معاشرے سے موازنہ کریں تو ہمیں وہ معاشرہ ہرگز جاہلیت پہ مبنی معاشرہ نظر نہیں آئے گا۔

عرب قبائل مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ اس کے لیے انہیں کسی وحی کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اس کی دو مثالیں جو بڑی آسانی سے میسر آ سکتی ہیں وہ حرب فجار اور حلف الفضول ہیں۔ جنگ فجار چار جنگوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جنگیں چونکہ ان مہینوں میں لڑی گئیں تھیں جن میں لڑائی حرام تھی اس لیے انہیں حرب فجار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی عمر کے بیسویں سال عکاظ کے بازار میں قریش و کنانہ اور قیس عیلان کے درمیان ماہ ذی قعدہ میں لڑی گئی۔

اس کی وجہ یہ ہوئی کہ براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس جنگ میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن و شرف کی وجہ سے قریش و کنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہو گئی۔ جنگ ختم کردی گئی اور جو شر و عداوت پیدا ہو گئی تھی اسے نیست و نابود کر دیا گیا۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے

اس جنگ کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آیا۔ چند قبائل قریش، یعنی بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی اسد بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تیم بن مرہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جدعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے۔ وہ سن و شرف میں ممتاز تھا اور آپس میں عہد و پیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرف رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد و پیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔

اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار، مخزوم، جمح، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستان مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار و مدد گار کیوں ہے؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہو گئے، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔

کرم و سخاوت اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہو گئے ہیں۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آ جاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی۔ ایسی سنگین حالت کے باوجود اس پر سخاوت کا جوش غالب آ جاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔

اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے اس لیے نہیں کہ یہ بذات خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم و سخاوت کو آسان کر دیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دواوین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح و فخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے :

ترجمہ: ”میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خم کے ساتھ تھا، نشان لگی ہوئی صاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھرپور رہتی ہے، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ “

ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ واثمھما اکبر‌ من نفعھما (2:219 ) ”ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ “

وفائے عہد بھی دور جاہلیت کے اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اولاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ سموال کا واقعہ یہ ہے کہ امرؤ القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا، اس نے انکار کر دیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند ہو گیا۔ سموال کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی مگر سموال انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا۔

خودداری و عزت نفس اس پر قائم رہنا اور ظلم و جبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت و غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت و اہانت کی بو آتی، شمشیر وسنان اٹھا لیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔

عزائم کی تنفیذ اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد و افتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔

حلم و بردباری اور سنجیدگی یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔

بدوی سادگی یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤ پیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔

اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا استقصاء مقصود نہیں۔

یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شر و فساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آ جاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔ اس کے برعکس ہمارے پاس اسلام کی واضح ہدایت موجود ہے ہم عشق رسول کے سب سے بڑھ کر دعوی دار بھی ہیں اس کے باوجود ہم نے کبھی اجتماعی طور پہ اپنا وزن مظلوم کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔

ہم بخیل بھی ہیں اپنا مال کسی ضرورت مند پہ خرچ کرنے میں نمائش کا پہلو پہلے دیکھتے ہیں۔ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ہمارے بازاروں کی بد نمائی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔ غرض کہیں بھی ہم ذاتی حیثیت یا اجتماعی طور پہ خود کو اسلام کے پیرامیٹرز میں تول کر دیکھ لیں شرمساری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ پھر قبل از اسلام کے عرب کسی وحی کے ذریعے ہدایت کے بغیر زیادہ جاہل تھے یا اللہ کی واضح ہدایت ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ زیادہ جاہل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments