اس پوری سیاسی دھینگا مشتی میں عوام کو کیا ملا؟


ایک جانب عمران خان یعنی مرکزی اپوزیشن اور صوبائی برسر اقتدار اور ان کے ساتھ جذبات سے بھرے پارٹی ورکرز یا دوسرے لفظوں میں عوام دوسری جانب حکومت ان کے اتحادی اور ان کی پارٹیوں کے ورکرز اور ادھر بھی دوسرے لفظوں میں عوام۔ دونوں کا ٹارگٹ اسلام آباد ایک نے سر کرنا تھا دوسرے نے روکنا تھا۔ ایک نے عوامی طاقت کے ذریعے دباؤ ڈالنا تھا اور دوسرے نے حکومتی مشینری یا فورسز کے ذریعے اس دباؤ کو دبانا تھا لیکن بدقسمتی دیکھیں ایک طرف دباؤ ڈالنے کے دوران جوان جان سے گئے تو دوسری طرف دباؤ کو دبانے کے جتن میں جان کی بازی ہار گئے۔

عوام کو کیا ملا؟ موت! اسلام آباد کی ضد تھی، جانا تھا، عدالت نے اجازت دے دی اور اسلام آباد پہنچ گئے لیکن وہاں جو جلاؤ گھیراؤ پتھراؤ، پکڑ دھکڑ اور نعرہ بازی ہوئی وہ کنٹینر پر کھڑے لوگوں کے عوام کے جذبات کو ابھارنے اور مذہب کے استعمال پر شروع اور ختم ہوا، املاک کو نقصان پہنچا عوام کو کیا ملا ان کے ٹیکس کے پیسوں سے بنی املاک اور گرین بیلٹ خاکستر۔ عمران خان کو فیس سیونگ ملی چھ دنوں کی مہلت لے کر واپس بنی گالہ اور پھر پشاور گئے۔

دوسرے ہی دن ملک کے نئے نویلے وزیر اعظم شہباز شریف نے پیٹرول کو یکمشت تیس روپے مہنگا کر دیا عوام کو کیا ملا آئی۔ ایم۔ ایف کی نازل کردہ مہنگائی کیونکہ لیڈران دونوں جانب سے پیٹرولیم مصنوعات سے متاثر نہیں ہوتے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور بھگتتے رہیں گے کیونکہ عوام ہی تختہ مشق ہوتے ہیں اور عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔ سیاست کے اس بیوپار میں لیڈران کے لئے عوام سستے ترین، جذبات سے بھرے سادہ ترین گاہک کے سوا کچھ بھی نہیں۔

بیوپاری بھی نعرے کچھ لگاتے ہیں اور بیچتے کچھ ہیں۔ داغدار فروٹ پل پر سٹیکر ادھر بھی لگتے ہیں۔ اصل گرما سردا کے بدلے کلاچی ادھر بھی اسی دام پر بیچ دیے جاتے ہیں۔ کلمے ادھر بھی درست کیے جاتے ہیں۔ میزان ان کے پاس بھی ہوتے ہیں پر تولتے اپنے اپنے باٹ سے ہیں۔ گاہک اور بیوپاری کا رشتہ ہی یا تو سو فی صد اعتبار پر ہوتا ہے یا پھر دو سو فی صد بے اعتباری پر ۔ لیکن ایک بار اعتبار ان پر بن جائے پھر وہ لاکھ دھوکہ کرے گاہک ان پر شبہ تک نہیں کرتے، وہ پھر لاکھ دو نمبری کریں گاہک ان پر انگلی اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

عوام سیاسی لیڈروں کے وہ گاہک ہیں جو بازار میں بیوپاری گاہک کی تو جو کے لئے اپنی اپنی چیز کے نعرے لگاتے ہیں پر اندر سے مارکیٹ کے مکمل مقابلہ کے اصولوں کے مطابق ایک ہوتے ہیں ایک ہی ریٹ پر اپنا اپنا سودہ بیچتے ہیں۔ ادھر بھی اپنا اپنا منشور، اپنا اپنا مقصد، اپنے اپنے نعرے اور اپنے اپنے شعار ہیں لیکن جب حکومت میں آتے ہیں تو پھر رویوں، کارکردگی، اوقات اور دائرہ اختیار کے لحاظ سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان کی زبان، ان کی دفاعی حکمت عملی اور سب کچھ سابقہ حکومت پر ڈالنے کی گردان ڈیٹو کاپی ہوتی ہیں۔

آج تک عوام کو تنزلی کے سوا ملا کیا؟ آج تک عوام کو بتدریج مہنگائی کے سوا ملا کیا؟ آج تک عوام کو غربت کی لکیر سے جانے کے علاوہ ملا کیا؟ آج تک عوام کو خود داری پر سمجھوتے کے بغیر ملا کیا؟ آج تک عوام کو مقروض سے مقروض تر بننے کے علاوہ ملا کیا؟ آج تک عوام کو معاشی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی بحران کے سوا ملا کیا؟ عوام کا نام سب لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نام پر کام ہوتے اور نکلتے ہیں لیکن کام نکلتے ہی سب ان کو نہ صرف بھول جاتے ہیں بلکہ پس پشت ڈال دیتے ہیں جیسے کہ اس گزشتہ سیاسی دھینگا مشتی میں ایک جانب سے عام نوجوان اور دوسری جانب سے فورسز کے جوان جان سے جا رہے تھے اور یہ سیاسی لیڈران تھے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے لئے وفود کا تبادلہ اور ایک دوسرے کے فیس سیونگ اور حکومت سیونگ کے لئے تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔

پھر دونوں جانب سے جان سے گزرنے والوں کے پسماندگان، وارثین اور یتیم بچوں کو گلے سے لگا کر اور گود میں بٹھا کر سیاسی تسلی و تشفی میڈیالائزڈ کر رہے تھے۔ عوام کو اتنا سیاسی طور پر بلیک میل کیا گیا ہے کہ وہ اب سیاسی ہپناٹائزڈ ہو گئے ہیں اب وہ جو یہ سیاسی لیڈران کہتے ہیں اس پر آمنا و صدقنا بولتے ہیں یا یہ سیاسی لیڈران جس طرف ان کو لے جانا چاہتے ہیں اس طرف کو چل پڑتے ہیں۔ پنجاب کے عوام تو آنسو گیس کے شیلنگ، گرفتاری اور پکڑ دھکڑ سے پشاور میں پناہی نہیں لے سکتے تھے لیکن سیاسی لیڈران یہ موقع اویل کر گئے۔

پشاور کے کارکن کے لئے تو اٹک کے اس پار حکومت کی دادرسی میسر نہ تھی لیکن لیڈران یہ داد رسی بھی حاصل کر گئے اور بے خوف خطر اسلام آباد میں کنٹینر تک پہنچ گئے۔ سیاسی یا پارٹی پالیٹکس میں عوام میں سے کتنے لوگ لیڈران بنے ہیں یہی گنتی کے دس پندرہ لوگ لیکن پارٹی موروثیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ یا باب ہے جو پیدا ہوتے ہی لیڈری کے لئے ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں یہی پارٹی پالیٹکس کے لیڈران کی ایک دوسرے سے رشتے ناتے، یاری دوستیاں بلکہ ایک ہی گھر میں پارٹی پالیٹکس تقسیم ہے اور ایک دوسرے کے لئے سیاسی سہارا بنے ہوئے ہیں اور ہر خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر اور شریک ہوتے ہیں ایک یہ عوام ہے کہ جذبات میں آ کر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے اقدام سے بھی آگے گزر جاتے ہیں۔ کاش کہ ان کو اپنے گاہک اور سیاسی لیڈران کی بیوپار کا علم ہو جائے تو پھر اس پشتو ٹپے کے مصداق ایک دوسرے سے کبھی بھی سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف یا ذاتی دشمنی کے حد تک نہ لے جائیں گے اور نہ پہنچائیں گے۔

خانان بہ بیا سرے خانان شی
پہ کے بہ تو ئے شی د رامبیل چامبیل گلونو
یعنی
خوانین پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ خوانین یا باہم مل بیٹھیں گے۔
ناحق موتیا اور چنبیلی کے پھول پاؤں تلے مسلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments