مطمئن رہنے کا فن سیکھنا پڑتا ہے!


میرا سفر گاؤں کی کچی گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے والے دوستوں سے شروع ہوا تھا اور پھر اس فہرست میں وہ بھی شامل ہوئے، جو گولف کھیلنے اور گھڑ سواری کے شوقین ہیں۔ ان سب کو میں تین دائروں، حصوں یا اقسام میں تقسیم کرتا ہوں۔

ایک وہ ہیں، جن کے پاس دولت بھی ہے، دو چار کے پاس شہرت بھی ہے، کاریں بھی ہیں، شراب بھی ہے، ایک نہیں بیک وقت کئی کئی گرل یا بوائے فرینڈز بھی ہیں، کلب بھی ہیں اور کمروں میں اے سی بھی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اندر ایک بے چینی ہے، ایک دوڑ ہے، ایک فکر ہے، جو ان کے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی ہے۔

جب بھی پوچھو یار کیا ہوا ہے؟ جواب ایک سا ملتا ہے، نیند پوری نہیں ہوئی، کچھ مسائل چل رہے ہیں، حالات ٹھیک نہیں ہیں، وہ والا لڑکا چھوڑ کر چلا گیا ہے، وہ والی لڑکی کسی اور کے ساتھ چلی گئی ہے۔

دوسرے ایسے دوست ہیں، جو غریب ہیں، برینڈیڈ کپڑے نہیں ہیں، کاریں نہیں ہیں، آسائشیں نہیں ہیں، شراب ہے نہ کلب ہے، ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی لڑکی کے ہاتھوں ریجیکشن ہوتی ہے، مفلسی کے مارے ہیں۔ ان کی بے چینی اور فکریں بھی بہت زیادہ ہیں، وہ بھی ہر وقت شکوے، گلے، لٹ گئے، مر گئے، کچھ نہیں ملا اس زندگی سے، کہتے رہتے ہیں۔

میرے دوستوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن ہیں۔ ان میں امیر اور غریب دونوں قسم کے دوست شامل ہیں لیکن یہ دل سے کسی حد تک اپنے حالات سے مطمئن ہیں یا کافی حد تک سمجھوتہ کر چکے ہیں یا انہیں پتا چل چکا ہے کہ مسائل سے نمٹنا کیسے ہے؟ ان کے چہروں پر موجود سکون اور طمانیت دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو سمجھ آ چکی ہے کہ آپ دنیا کی ہر چیز حاصل نہیں کر سکتے، من چاہا لڑکا یا لڑکی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ اپنی کشتیوں پر خود کم سامان لادتے ہیں، یہ بیک وقت متعدد بوائے یا گرل فرینڈز رکھنے کے نتائج سے آگاہ ہیں، زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور اس کے ساتھ ملنے والی ذمہ داریوں یا مسائل کے بوجھ سے آگاہ ہیں۔ ہر چیز مل جائے کی دوڑ سے کسی حد تک باہر نکل چکے ہیں۔

چند برس پہلے ایک جرمن ٹیلی وژن پر ڈاکومینٹریز کی ایک سیریز شروع ہوئی تھی، جس میں تیس، چالیس برس پہلے بننے والی ڈاکومینٹریز دکھائی جاتی تھیں اور پھر اسی ملک سے متعلق موجودہ دور کی کوئی نئی ڈاکومینٹری شامل کی جاتی تھی تاکہ موازنہ کیا جا سکے کہ اتنے عرصے میں کیا کیا کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔

اس میں ایک ڈاکومینٹری پاکستان کے بارے میں بھی تھی، جو شاید ساٹھ یا ستر کی دہائی میں بنائی گئی تھی۔ اس میں ایک سین ایک پاکستانی دیہاتی کا بھی تھا، جو بھینسیں چرا رہا تھا۔ صحافی اس بوڑھے دیہاتی سے پوچھتا ہے کہ آپ اپنی موجودہ زندگی سے مطمئن ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے کہ بالکل مطمئن ہوں۔ پھر صحافی کہتا ہے کسی چیز کی کمی تو ہو گی؟ وہ جواب دیتا ہے کہ نہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

صحافی کہتا ہے کہ آپ کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں، ٹی وی نہیں، وی سی آر نہیں، کوئی سائیکل نہیں، آپ کے پاس بہت سی چیزیں نہیں ہیں۔ وہ سفید داڑھی والا بوڑھا ہنستے ہوئے جواب دیتا ہے کہ نہیں، مجھے جو چاہیے وہ میرے پاس موجود ہے، میں مطمئن ہوں، میں خوش ہوں۔

اس کے بعد کیمرہ کچھ دیر کے لیے اس بوڑھے چرواہے کے مطمئن چہرے پر فوکس ہو جاتا ہے۔ وہ صحافی ڈاکومینٹری کے دوران ہی کہتا ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ اپنی زندگی سے مطمئن ہے لیکن ایک صنعتی معاشرے میں فریج ہیں، موٹر گاڑیاں ہیں، آرام دہ کمرے ہیں لیکن لوگ مطمئن نہیں ہیں۔

آج کے اس ڈیجیٹل دور میں میرا یا پھر ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا یہی حال ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے، سواری کے ایسے نظام ہیں، جو پہلے لوگوں کے پاس نہیں تھے، کھانے میں وہ ٹیسٹ ہیں، جو پہلے نہیں تھے، سونے کے لیے وہ آرام دہ بیڈ ہیں، جن کا پہلے کسی نے خواب تک نہ دیکھا تھا، بیٹھنے کے لیے نرم و گداز صوفے ہیں، ٹھنڈے مشروبات اور کوک ٹیلز ہیں، بہترین گھڑیاں ہیں، رابطے کے لیے ٹچ موبائل ہیں، ٹیلی وژن ہیں لیکن ہم مطمئن نہیں ہیں۔

اطمینان اور سکون ایک سیکھنے کی چیز ہے، اسے مادی اشیاء کے مسلسل حصول سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایک کامیاب کاروبار سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، ایک کامیاب ملازمت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، یہ آسائشیں خریدنے، شہرت پانے، زیادہ بوائے یا گرل فرینڈز رکھنے اور دولت ملنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔

جس طرح انسان غصے کو کنٹرول کرنا سیکھتا ہے، میرے خیال سے بالکل اسی طرح مطمئن رہنا بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ میرے اندر بھی بے چینی پیدا ہوتی ہے، نئی خواہشات سر اٹھاتی ہیں، نئے لوگ زندگی میں آتے ہیں لیکن میں خود اپنے آپ کو یہ بار بار سمجھاتا ہوں کہ مطمئن رہنا سیکھنا پڑتا ہے، مطمئن ہونا پڑتا ہے۔

کسی مشہور، خوشحال، دولت مند اور مہنگی کار میں جاتے شخص کو دیکھ کر انسان کا دل بھی بالکل ویسا ہی بننے کو کرتا ہے، جو فطری عمل ہے۔ میرا اپنا بھی یہی حال ہے لیکن یہ عادت تباہ کن ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ اس کے بعد یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ کمی ہے یا میری صلاحیتیں اس سے کم ہیں، یا میری ذات میں کوئی کمی ہے۔ اور اگر آپ کو وہ سب کچھ مل بھی جائے، جس کو دیکھ کر آپ خواہش کر رہے تھے، تو بھی انسان غیر مطمئن ہی رہے گا۔ مزید دولت مند ہونے، مزید مشہور ہونے، مزید مکان بنانے، گاڑی کا نئے سے نیا ماڈل خریدنے، مہنگے سے مہنگا لباس پہننے کی طلب جاری رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے، جس میں آپ جتنا پانی پیتے ہیں، اتنی ہی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ ہم تمام زندگی بھی خواہشوں کے پیچھے بھاگیں تو یہ ختم ہونے والی نہیں ہیں اور ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔

میری اس ساری گفتگو کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اچھی جاب یا اچھی ملازمت یا مزید خوشحالی کے لیے آپ کوششیں ترک کر دیں۔ کوشش کریں لیکن جو آپ کے پاس موجود ہے، اس سے لطف اندوز ہونا بھی تو سیکھیں، اس سے مطمئن ہو کر زندگی انجوائے کرنا تو شروع کریں۔ ترقی کی جستجو ہر وقت رہنی چاہیے، یہ زندگی کی علامت ہے بلکہ خواہشات ہی زندگی کو جاری رکھنے کا ایندھن ہیں لیکن کوشش کرنے کے بعد نتیجے سے مطمئن ہونے کا فن آنا چاہیے۔

میں نے ایک دن پراٹھے میں کچھ نقص نکالا، تو امی جی کہنے لگیں، شکر کرو گندم کا پراٹھا کھا رہے ہو ورنہ پہلے تو گندم مہنگی ہوتی تھی اور ہم باجرے یا جو کی روٹی کھایا کرتے تھے، ہم ترسا کرتے تھے کہ کبھی ہفتے کے سات دن گندم کی روٹی بھی کھائیں گے۔ آپ جب ماضی کو ذہن میں رکھتے ہیں تو مطمئن ہونا یا رہنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

میں نے سرگودھا میں پڑھائی کے دوران ایک مرتبہ کوئی تین مہینے بعد ٹھنڈا دودھ پیا، اس کا شیریں ذائقہ آج تک میری روح محسوس کرتی ہے اور اب میں جب بھی دودھ پینے لگتا ہوں مجھے وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے، اب کوئی تھوڑا سا بھی دودھ ضائع کرے تو میں فوراً کہتا ہوں کیوں ضائع کر رہے ہو؟ وجہ یہ کہ احساس بیٹھ چکا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جو میرے پاس کبھی نہیں تھی۔

گاؤں میں ایک وقت تھا کہ امی جی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ گھر میں کسی طرح بجلی آ جائے تو وہ راتوں رات ہی سارے کام نمٹا کر سویا کریں، باجی کی ایک وقت خواہش یہ تھی کہ ہمارے مٹی کے صحن میں بھی سرخ اینٹیں لگ جائیں تو انہیں دھونے کا کتنا مزہ آئے، بھائی کبھی کہتا تھا کہ صحن میں فرش ہو جائے تو گرمیوں میں اس پر پانی پھنک کر پھسلنے میں کیا ہی مزہ ہو؟

ہم سب ایسے ہی ماضی سے نکلے ہوئے ہیں، ہم نہ سہی ہمارے آبا و اجداد کا ماضی ایسا ہو گا، جہاں آسائشیں بہت کم تھیں، سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، اچھے ڈاکٹر نہیں تھے، ادویات نہیں تھیں، پیزے نہیں تھے، برگر نہیں تھے، سواریاں نہیں تھیں، پانی گرم تھا، لائٹ نہیں تھی، استریاں نہیں تھیں، ٹی وی نہیں تھے، اسمارٹ فون نہیں تھے۔

آج ہم سب کے پاس وہ بہت سی چیزیں موجود ہیں، جن کی ہم کبھی خواہش کرتے تھے۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ جو اب آپ کے ہاتھ میں بے معنی سا ایک موبائل ہے، کبھی آپ کی ایک بڑی خواہش رہا ہے، جو شخص ابھی آپ کے ساتھ تعلق میں ہے، کبھی آپ نے اس کی خواہش کی تھی۔

ہم سب کو بہت کچھ مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم مطمئن نہیں ہیں، ہمیں سکون نہیں ہے کیوں کہ ہم نے مطمئن ہونا سیکھا ہی نہیں ہے۔ ہمیں سکھایا نہیں گیا کہ جو کچھ تمہارے پاس نہیں ہے، اس کے بارے میں زیادہ فکرمند نہ رہو بلکہ اس کے بارے میں زیادہ خوش رہو، جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے۔

میرے زیادہ تر پڑھے لکھے دوست آج بھی تقریباً ہر محفل میں دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں کی بات کرتے ہیں، عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ پر تجزیے کرتے ہیں، ارسطو، کانٹ، فرائیڈ، نطشے، روسو، کارل مارکس اور سارتر جیسی شخصیات کے حوالے دیتے نہیں تھکتے لیکن میرے جیسے عام شخص کو یہ نہیں بتا پاتے کہ تمہارے یہ مسائل ہیں اور تم نے ان سے نمٹنا کیسے ہے؟

میں آج بھی اس ساری علمی و عالمی سطح کی گفتگو میں خود کو تنہا کھڑا محسوس کرتا ہوں۔ میرے وہ مسائل ہی نہیں ہیں، جن کے بارے میں میرے تمام پڑھے لکھے دوست میرے ساتھ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ شاید ہمیں اپنی علمی محافل میں بڑے بڑے نظریات کے ساتھ ساتھ انسان کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو بتانے کی ضرورت ہے کہ مطمئن رہنا ایک فن ہے، جسے ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے، اس جیسے کئی دیگر ”چھوٹے چھوٹے انسانی مسائل“ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments