کیا واقعی اسلحہ پشتونوں کا زیور ہے؟


اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں جتنا پشتونوں کو سیاسی اور مذہبی طور پر استعمال کیا گیا ہے اتنا کسی اور قوم کو استعمال نہیں کیا گیا۔ دشمنوں نے دوست بن کر، دوستوں نے دشمن بن کر، حملہ آوروں نے خیرخواہ بن کر، حکمرانوں نے ہمدرد بن کر، مذہبی پیشواؤں نے مقرب بن کر، ہم زبانوں نے ہم زباں بن کر۔ یعنی ایسا کوئی شخص، تنظیم یا ٹولہ نہیں جس نے پشتونوں کو کسی نہ کسی حوالے سے مس گائیڈ یا استعمال نہ کیا ہو۔ لیکن۔ لیکن پشتو کی اس کہاوت کے مصداق :۔ چہ دا چا؟ دا پہ خپلھ، گیلہ مہ کوہ دا بلہ۔ یعنی یہ کس نے؟ یہ ہم نے خود، پھر گلہ کس سے اور کیوں۔ یعنی اس تمام صورت حال میں اگر بیرونی ہاتھ اور بیرونی آلات اور شخصیات ملوث ہیں تو اندرونی ہاتھ، شخصیات اور آلات کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آج اگر پشتونوں پر دہشت گردی کا الزام لگتا ہے تو وہ اس لئے کہ یہ کبھی مجاہدین تھے، بلکہ بقول پرویز مشرف اور عمران خان ہم نے مجاہدین امریکہ کے کہنے پر بنائے تھے۔ لیکن جب ان کا کام نکل گیا تو امریکہ کے یو ٹرن کی وجہ سے یہی مجاہدین پھر دہشت گرد بن گئے۔ پشتون قبائل غیور اس لئے کہلائے گئے کہ نہ صرف مشرقی بارڈر کے دفاع میں پیش پیش رہے بلکہ آگے بھی نکل گئے تھے۔ پشتون اگر وفادار اور نڈر کہلائے تو وہ اس لئے کہ قبائلی ایریا میں مغربی سرحد کی دفاع کے لئے ہراول دستے کا کردار نبھا رہے تھے۔

پشتون اگر لڑاکا کہلائے تو وہ اس لئے کہ قبائلی علاقے، علاقہ غیر ہونے کی وجہ سے اسلحہ کے آزادانہ بنانے، رکھنے اور استعمال کرنے کے لئے کسی بھی ملکی قانون ( مستثنیات کو چھوڑ کر ) کے زیر اثر نہیں تھے۔ خان عبدالولی خان کا بیان رکارڈ پر ہے کہ امریکہ اور روس کی اس جنگ میں ہمارے ملک میں کلاشنکوف کلچر پھیل جائے گا۔ اسفند یار ولی خان کا بیان اب بھی اسمبلی کے فلور پر سراپا احتجاج ہے کہ خدا کے لئے میرے بچوں کے ہاتھوں سے بندوق چھین لیں اور اس کے بدلے ان کو کتاب اور قلم فراہم کر دیں۔

اگر اسلحہ پشتونوں کا زیور ہوتا تو باچا خان عدم تشدد کا پرچارکھ نہ ہوتے، آزاد مدرسوں کی بنیاد نہیں ڈالتے، سینتیس سال قیدوبند کے صعوبتیں نہیں جھیلتے، بابڑا میں شہید ہونے کے بجائے پشتون مزاحمت پر اتر آتے، اس وقت پشتونوں میں سیاسی اور صحافیانہ شعور کو اجاگر کرنے کے لئے انجمن افغاناں اور پشتون رسالے کا اجرا نہیں کرتے۔ خان عبدالصمد خان استقلال اخبار نہیں نکالتے، پشتو املا اور لہجوں پر کام نہیں کرتے، سیاسی جد و جہد کے لئے کمر نہیں کستے، ولی خان کلاشنکوف کلچر کے پھیلنے کے خطرات اور اثرات پر سب سے پہلے انگلی نہیں اٹھاتے۔

محمود خان کوئٹہ کے سات اکتوبر کے واقعے کا جواب ناول کی زبان میں سات اکتوبر کی رزم لکھ کر جواب نہیں دیتے۔ اسفندیار ولی اسمبلی کے فلور پر پشتون بچوں کے ہاتھوں میں دلئے ہوئے بندوق کے چھیننے اور اس کے بدلے کتاب اور قلم دینے کی بات نہیں کرتے۔ اعتزاز حسن سکول کا بچہ خود اپنے سکول کے ساتھی بچوں کو بچانے کے لئے خود کش بمبار کو گلے نہیں لگاتے۔ اسلحہ اگر پشتونوں کا زیور ہوتا تو اپنے ملک میں سب سے زیادہ ”اندرونی بے دخلی افراد میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔

اسلحہ اگر پشتونوں کا زیور ہوتا تو گزشتہ دہشتگردی میں سب سے زیادہ شہید، اور زخمی نہیں ہوتے اور مزید یہ کہ اس کے نتیجے میں کوئی ایک گملا بھی سرکاری املاک کا نہیں ٹوٹا۔ دو ہزار سولہ میں اے۔ پی۔ ایس کے واقعے میں پھولوں جیسے بچے شہید ہوئے لیکن ردعمل میں نہ روڈ بند ہوا نہ ہڑتال ہوئی اور نہ کسی کو جانی و مالی نقصان پہنچا دوسرے دن زندگی معمول کی طرح رواں دواں تھی اور یہی حال بشیر بلور کی شہادت پر بھی ہوا دوسرے دن ہزاروں لوگ پشاور کے عین وسط میں جمع تھے لیکن شہید کے جنازے کے لئے نہ کہ کسی شر فساد کے لئے،

دور کیوں جائیں گزشتہ مہینوں پشاور کے قصہ خوانی بازار کی مسجد میں خود کش حملہ ہوا جس میں ستر سے زیادہ لوگ شہید ہوئے اور اس وقت عمران خان میلسی میں سیاسی جلسہ کر رہے تھے جلسہ روکنا تو درکنار، نہ اس وقت ان شہدا اور زخمیوں کی داد رسی کے لئے گئے اور نہ آج کے دن تک وہاں کا رخ کیا ہے لیکن مزے کی بات دیکھیں کہ اب پناہ پشاور میں لئے ہوئے ہیں اور سیاسی طور پر وہ اور ان کی سیاسی ٹیم سادہ لوح پشتونوں کو حکومت کے خلاف ورغلا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں جب پورے ملک میں خصوصاً اور صوبہ پشتونخوا میں عموماً دہشت گردی کے بادل کسی حد تک چھٹ چکے ہیں اور خدا خدا کر کے حالات کچھ معمول پر آچکے ہیں، عوام اور فورسز سکھ کی سانس لے چکے ہیں جبکہ اب ایک بار پھر مزید خون خرابے اور حالات کو خراب کرنے کی سازش اور گفتار و للکار کی بو بلکہ بدبو شاطروں کی منہ سے اس طرح پھیل رہی ہیں کہ معاشرے میں ہر جانب سیاسی تعفن کی فضا بنتی جا رہی ہے جس میں نہ صرف اپوزیشن کی ٹاپ لیول کی قیادت بلکہ امریکہ سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے مہمان خاص ان سے بھی دو ہاتھ اور چار قدم آگے ہیں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ادارے یا ملک میں مستقل تعینات اتنے خطرناک کبھی بھی نہیں رہے ہیں جتنا کہ کسی ادارے یا ملک میں ڈیپوٹیشن پر تعینات لوگ خطرناک ثابت ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments