شہباز شریف قومی حمیت اور وقار

پنجاب کے عوام درحقیقت ایک ”بڑے دل“ کے مالک ہیں چنانچہ اس بات کو مسترد کرنے کی بجائے انہوں نے سال 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے منتخب کرایا جس کا سہرا اس وقت کے وزیراعلی شہباز شریف کی طرز حکمرانی اور قرضوں پر مبنی بڑے ترقیاتی منصوبے تھے۔
شہباز شریف نے اپنے دوسرے دور حکمرانی میں ایک بار پھر متعدد بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جس میں راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس، ملتان میٹرو بس سروس، لاہور اورنج لائن ٹرین اور سی پیک کے نیچے قائم کردہ 3500 میگاواٹ کے تین بڑے بجلی گھر نمایاں ہیں۔
عوام الناس کے ایک بڑے طبقے نے ان منصوبوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی بھرپور پذیرائی کی۔ جب کہ شہباز شریف کے مخالفین اور متعدد ممتاز معیشت دانوں نے ان منصوبوں کو غیر ضروری اور معیشت کے لئے ایک بھاری بوجھ سے تعبیر کیا۔ ان کی مخالفت کی بڑی وجہ ان منصوبوں کے لئے حاصل کردہ بھاری ملکی اور غیر ملکی قرضے اور ان منصوبوں کا اپنے طور پر ان کی ادائیگی سے معذوری ہے جنہوں نے درحقیقت ان منصوبوں کو ایک بڑے سفید ہاتھی میں تبدیل کر دیا ہے۔
میاں شہباز شریف اور ان کے بھائی سابقہ وزیراعظم نواز شریف کو اس حقیقت کا مکمل طور پر ادراک تھا لیکن ایک شاطر اور موقع پرست سیاستدان کے طور پر وہ عوام الناس کی معیشت کی باریکیوں سے مکمل لاعلمی سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان منصوبوں کی فلاحی پہلو کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا جس میں انہیں ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حلقے کی مکمل تائید بھی حاصل رہی۔ حسب توقع عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کے بیانیے کو من و عن تسلیم کیا جس کا نتیجہ پوری پاکستانی قوم روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سنگین معاشی مسائل اور ممکنہ نادہندگی کی لٹکتی ہوئی تلوار کے خوف کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف اور ان کی جماعت اپنی ناقص معاشی پالیسیوں کے باوجود آج کل پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم، تحریک انصاف کے منحرف اراکین اور دیگر اتحادی جماعتوں کی کمزور بیساکھیوں کی بدولت مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار ہے۔
لیکن اس بات سے قطع نظر شہباز شریف کے حامی ان سے اس نام نہاد ”شہباز شریف سپیڈ“ کے متمنی ہیں جو کہ انہوں نے اپنے وزارت اعلی کے دور میں بھاری بھرکم ملکی و غیر ملکی قرضوں کے بے دریغ اور اندھا دھند استعمال سے حاصل کی تھی جو کہ موجودہ کمزور معاشی صورتحال کی بدولت ممکن نہیں ہے۔ شہباز شریف ان مشکل حالات میں ایک انتہائی کمزور منتظم ثابت ہو رہے ہیں چنانچہ وہ معیشت کو درپیش سنگین مسائل کو حل کرنے کی بجائے اسلام آباد میٹرو، پی ٹی آئی کے دور میں شروع کیے متعدد عوامی منصوبوں لاہور میں قائم کردہ جگر اور گردے کے ہسپتال اور لاہور میں ہی صفائی کے انتظامات کی نگرانی اور دوروں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جہاں وہ یہ بات مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ کام ان کے صاحبزادے کے ہیں جو شومئی قسمت اس وقت وزیر اعلی پنجاب کی کرسی پر براجمان ہیں۔
شہباز شریف کی موجودہ روش اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ چنانچہ ان سے جب بھی معاشی مسائل کے حل اور عمران خان کی طرف سے عائد کردہ مبینہ امریکی سازش کی بات کی جاتی ہے تو وہ ”Beggars Can ’t Be Choosers“ (بھکاری کبھی چننے والے نہیں ہوتے ) جیسے رکیک اور دلخراش الفاظ استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتے جو کہ در حقیقت دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا موجب ثابت ہو رہے ہیں۔
شہباز شریف کی جی حضوری، ملکی غیرت اور حمیت سے مکمل عاری ہونے کا ثبوت ان کے برادر ملک ترکی کے حالیہ دورے میں کھل کر سامنے آیا ہے۔ جب انہوں نے انقرہ میں ترکی اور پاکستان کے صنعت اور تجارت سے وابستہ افراد سے خطاب کے دوران ایک پیشہ ور درباری کی طرح ترکی کی جانب سے اب تک کی دی جانے والی تائید اور امداد کی تعریف کرتے ہوئے خوشامد اور ستائش کے ڈونگرے برسا دیے۔
پاکستانی عوام ترکی کو ہمیشہ سے ایک سچا دوست اور برادر ملک سمجھتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت میں ترکی کی حمایت میں جیلیں بھرنے کے علاوہ مالی اور افرادی امداد میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔
اس کے علاوہ مسئلہ قبرص پر پاکستان نے ترکی کی پرزور حمایت کی اور ترک قبرص کو تسلیم کرنے میں کسی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان نے آذربائیجان اور آرمینیا کے حالیہ تنازعے کے دوران ترکی کے موقف کی پرزور تائید اور حمایت کی جن تمام باتوں اور اقدامات کی ترک قوم آج تک معترف ہے۔ چنانچہ ایک زندہ اور پائندہ قوم کی طرح شہباز شریف کی جانب سے ادا کردہ ”ماسٹر“ کا لفظ کسی طور بھی ترکوں کی پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا۔ درحقیقت اس بات نے شہباز شریف کو ایک خوشامدی اور غلامانہ سوچ کے حاصل شخصیت کے طور پر مزید اجاگر کر دیا ہے جس کو پاکستانی تو کیا ترک عوام کی بھی تائید حاصل نہیں ہو سکتی۔
قارئین کرام وطن عزیز اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک اور بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی، معاشی اور حکومتی بحران نے عوام الناس کو اہم قومی اداروں کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ ان حالات میں شہباز شریف اور ان کے ہم نواؤں کی طرف سے ملک کی غیرت، حمیت اور وقار کے برعکس غلامانہ سوچ کے بیانات اس خلیج کو مزید وسیع کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ چنانچہ ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل صرف اور صرف جلد انتخابات کا انعقاد ہے۔ جس کا مزید التوا اور حالیہ دنوں میں بڑھتا ہوا حکومتی جبر اور تشدد عوام اور اہم ریاستی اداروں کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو اس حد تک لے جا سکتا ہے جہاں سے خدانخواستہ واپسی ناممکن ہو سکتی ہے۔
- شہباز شریف: مجھے کس نے دھکا دیا - 22/07/2022
- بدعنوان سیاست: حقیقت یا فسانہ - 07/07/2022
- شہباز شریف قومی حمیت اور وقار - 05/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).