علم موسیقی اور وارث شاہ ؔ کی ہیر ایک مختصر تحقیقی جائزہ


”ہیر وارث شاہ“ پنجابی زبان کا ایک شاہکار ادبی ورثہ ہے۔ بنیادی طور پہ یہ ایک منظوم داستان یا قصہ ہے جسے سید وارث شاہ نے اس انداز سے تکمیل تک پہنچایا کہ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی جن لوگوں نے یہ قصہ لکھا وارث شاہ ان پر بھاری رہا۔ پنجابی ادب میں اگر کسی کو شہرۂ آفاق اور پنجابی زبان کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے تو وہ وارث شاہ ؔہیں۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ جن میں سے ایک رائے یہ ہے کہ آپ کی پیدائش 1709 ء میں شیخوپورہ کے ایک گاؤں جنڈیالہ شیر خان میں ہوئی۔

وارث شاہ کا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے مخدوم غلام مرتضیٰ قصوری کے مدرسے قصور کا رخ کیا۔ ظاہری علوم کے بعد باطنی علوم کے حصول کے لیے بابا فرید جنگ شکر ؒ کے دربار پر ڈیرا ڈالا۔ بعد ازاں مرشد کے حکم پر ملکہ ہانس چلے گئے اور مسجد کی امامت کے ساتھ پنجابی زبان و ادب کا شاہکار بھی تخلیق کرتے رہے آپ نے اپنی اس منظوم داستان میں پنجاب کی اس دور کی منظر کشی نہایت دلکش انداز میں کی ہے۔

آپ کی اس داستان میں پنجاب کی سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور دیہاتی زندگی کے نقوش نہایت عمدگی سے اشعار کی صورت بیان ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آپ نے یہ داستان چالیس برس کی عمر میں شروع کی اور تقریباً پچاس برس کی عمر میں سن 1766 ء میں مکمل کی جس کا ذکر انہوں نے اپنی داستان میں بھی کیا ہے آپ کو پنجابی کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے اور آپ کی تخلیق کو لافانی اور پنجابی ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے اس بنا پر کوئی آپ کو پنجابی کا شیکسپیئر کہتا ہے تو کوئی مولیئر۔ کوئی انہیں سعدی کا ہم پلہ مانتا ہے تو کوئی رومی کا۔

وہ بیک وقت صوفی بھی ہیں اور رند بھی، ملا بھی اور قلندر بھی۔ اس قصے کو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے جو کہ اس کے عالمگیر اور آفاقی تخلیق ہونے کی ایک بہت بڑی سچائی ہے۔ ہیر رانجھا کے قصے کو دمودر سے لے کر دائم اقبال دائم ؔ تک لگ بھگ سو شعراء نے رقم کیا مگر جو عزت اور شہرت ”ہیر وارث شاہ“ کو ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔

” ہیر وارث شاہ“ ایک منظوم ڈراما ہے۔ پرانے زمانے میں یونان سے لے کر بر صغیر پاک و ہند تک ڈرامے منظوم نوعیت کے ہی ہوا کرتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انہیں ”لوک ناٹک“ کا نام دیا جاتا تھا اور لوکل سطح پر ”ناٹک منڈلیاں“ ہوا کرتی تھیں جو یہ ڈرامے گلی محلے میں کھیلا کرتی تھیں۔ ارسطو نے اپنی ”بوطیقا“ میں ڈراما کی جو خصوصیات بتائی ہیں، ”ہیر وارث شاہ“ میں وہ سب موجود ہیں۔ ماضی میں یہ منظوم ڈرامہ دیہات، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ تھیٹر میں بھی کھیلا جاتا رہا ہے۔

راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی ڈراماٹک سوسائٹی ”قائدینز ڈراماٹک کلب QDC“ کے پیش کردہ ڈرامے ”میں ہاں وارث“ جو 2017 سے لے کر 2019 تک پورے ملک میں مختلف مقامات بشمول یونیورسٹیوں میں مختلف مواقع پر درجن مرتبہ پیش کیا گیا اور کئی ایوارڈز بھی جیتا، میں براہ راست ”ہیر وارث شاہ“ گائی جس کے اشعار ڈرامے کے مختلف مناظر سے ہم آہنگ تھے۔ مجھے بچپن ہی سے اس قصے میں ایک عجیب طرح کی سرشاری کا احساس ہوتا ہے جب جب ٹی وی یا کسی اور پلیٹ فارم پر ”ہیر وارث“ شاہ کے اشعار سنے تب تب ایک کیفیت کا ظہور ہوا اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک نہایت اہم وجہ جو میں سمجھتا ہوں وہ اس کی غنایت اور اس کے اشعار میں موجود ایک لے اور ترنم ہے۔

”ہیر وارث“ شاہ محض اشعار کی ایک سلسلہ بندی نہیں بلکہ یہ اپنے اندر کئی طرح کے رموز و علوم کو چھپائے ہوئے ہے جو اس کی عمیق قرات سے قاری پر عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ”ہیر وارث شاہ“ کے مطالعے سے وارث شاہؔ کے کئی روپ کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ موسیقی کے رموز سے بھی آگاہ ہیں اور راگ و تال کے نظام سے بھی پوری طرح آشنا ہیں۔ اس مضمون کا مقصد بھی اسی پہلو کو بیان کرنا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہیر کی موجودہ طرز خود وارث شاہؔ کی بنائی ہوئی ہے اور یہ قرین قیاس بھی ہے اس میں جو سوز و گداز کی کیفیت پائی جاتی ہے اس کی مثال کسی علاقے کی لوک دھن میں مشکل سے ملے گی۔ اس طرز میں راگ ”بھیروی“ کا انگ نمایاں ہے جو اس غیر فانی تخلیق کا سدا بہار راگ ہے۔ ہیر میں جہاں اپنے دور کے رسوم و رواج، رہن سہن اور تہذیب و تمدن سمٹ کر آ گئے ہیں وہیں ایک جگہ موسیقی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ مقام ”رانجھے کا پانچ پیروں سے ملاقات“ ہے جہاں رانجھا پانچ پیروں کو بانسری پر راگ گا کر سناتا ہے۔ اشعار مع اردو ترجمہ ملاحظہ ہوں :

شوق نال وجائی کے ونجلی نوں، پنجاں پیراں اگے کھڑا گاؤندا اے
کدی اودھو تے کانھ دے بشنپدے، کدے ماجھ پہاڑی دی لاؤندا اے

(رانجھا شوق کے ساتھ پانچوں پیروں کے سامنے کھڑا بانسری بجانے لگتا ہے اور گاتے ہوئے کبھی شری وشنو اور کبھی اودھوتے کا ہن کے گیت گاتے ہوئے اس میں پہاڑی راگ کی مانجھ یعنی تڑکا یا راگنی لگاتا ہے )

کدی ڈھول تے مارون چھوہ دندا، کدی بوبنا چائی سناؤندا اے
ملکی نال جلالی نوں خوب گاوے، وچ جھیوری دی کلی لاؤندا اے

(کبھی ڈھول اور مارون بجاتا اور کبھی ”بوبنا“ سنانے لگتا اور جلالی کے ساتھ ملکی گاتا اور پھر اس میں جھیوری کے میٹھے سر بھی لگاتا جاتا)

کدی سوہنی تے مہینوال والے، نال شوق دے سد سناؤندا اے
کدی دھرپداں نال کبت چھوہے، کدی سوہلے نال رلاؤندا اے

(کبھی سوہنی اور مہیوال کے گیت شوق سے گانے لگتا اور کبھی دھرپد یعنی راگ کی ابتدا کے ساتھ کبت یعنی شاعری کی ایک قسم یا ہندی نظموں کی مخصوص اصناف شروع کر دیتا اور پھر ان میں سوہلے یعنی شادی بیاہ کے گیتوں کا رچاؤ کرتا)

سارنگ نال تلنگ شہانیاں دے، راگ سوہی دا بھوگ چا پاؤندا اے
سورٹھ گزریاں پوربی للت بھیروں، دیپک راگ دی زیل وجاؤندا اے

(راگ سارنگ کے ساتھ راگ تلنگ شہانیاں اور راگ سوہا یا سوہنی کی بندش کرتا، سورٹھ، گجریاں، پوروی، للت بھیروں اور دیپک راگ کی تاریں ہلاتا)

ٹوڈی میگھ ملھار گونڈ دھناسری، جیتسری بھی نال رلاؤندا اے
مالسری تے پرج بہاگ بولے، نال ماروا وچ وجاؤندا اے

(ٹوڈی، میگھ ملہار، گونڈ، دھناشری اور جیت سری بھی ساتھ ملاتا اور مالسری اور پرج بہاگ بھی گاتا اور اس میں ماروا کے سروں کی آمیزش بھی کرتا)

کیدارا بہاگڑا تے راگ مارو، نالے کانہڑے دے سر لاؤندا اے
کلیان دے نال مالکونس بولے، اتے منگلاچار سناؤندا اے

(کیدارا اور بہاگڑا، ماروا اور کانہڑے کے سر لگاتا اور کلیان کے ساتھ مالکونس بجاتا اور پھر خیر و برکت کے لیے دعائیہ کلمات بھی شامل کرتا)

بھیروں نال پلاسیاں بھیم بولے، نٹ راگ دی زیل وجاؤندا اے
بروا نال پہاڑ جھنجھوٹیاں دے، ہوری نال آساکھڑا گاؤندا اے

(بھیروں کے ساتھ راگ بھیم پلاسی بھی بجاتا اور اس کے ساتھ نٹ راگ کی تاریں بھی بجاتا، بروا کے سنگ پہاڑی اور جھنجھوٹی اور ہوری یا ہولی کے ساتھ آسا بھی گاتا ہے )

بولے راگ بسنت ہنڈول گوپی، منداونی دیاں سراں لاؤندا اے
پلاسی نال ترانیاں رامکلی، وارث شاہ نوں کھڑا سناؤندا اے

( راگ بسنت کے ساتھ شری کرشن کے ساتھ کھیلنے والی گوپیوں کے جھولوں کے گیت بھی گاتا ہے اور راگ ہنڈول بھی اور پھر اس میں منداونی کے سر بھی لگاتا، راگ پلاسی کو ترانوں کے ساتھ سجا کر وارث شاہؔ کے سامنے کھڑا ہو کر سناتا ہے )

یہاں پہ آٹھ اشعار کا ذکر ہے جن میں وارث شاہؔ نے تقریباً تیس راگ اور ان کے علاوہ موسیقی کی اصطلاحوں کے نام گنوا ڈالے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ موسیقی کی مروجہ تالوں کے نام بھی ان اشعار میں آئے ہیں۔ جن میں سے کچھ کے نام یا تو فی زمانہ تبدیل ہو چکے ہیں یا متروک ہو چکے ہیں۔ راگوں کے نام درج ذیل ہیں :

1۔ مالکونس 2۔ ہنڈول 3۔ پلاسیاں بھیم ( بھیم پلاسی) 4۔ سارنگ 5۔ سوہی ( غالباً سوہنی ) 6۔ سورٹھ ( راگنی) 7۔ گزری ( گجری) 8۔ پوربی ( پوروی) 9۔ للت 10۔ بھیرو 11۔ دیپک 12۔ ملہار 13۔ میگھ ( یاد رہے یہ علاحدہ بھی ہیں اور میگھ ملہار کے نام سے اکٹھے بھی) 14۔ ٹوڈی 15۔ بہاگ 16۔ دھناسری ( دھناشری) 17۔ جیستری 18۔ مالسری 19۔ بسنت 20۔ رام کلی 21۔ ماروا 22۔ کانہڑا 23۔ کلیان 24۔ جھنجھوٹی 25۔ پہاڑی 26۔ مکلی۔

ان راگوں کے علاوہ کچھ اصطلاحوں، گیتوں اور تالوں کے نام بھی ہمیں ان اشعار میں دکھائی دیتے ہیں مثلاً منگلا ( چار بندوں کے بول) ، گوپی ( جھولے کا گیت) ، منداونی ( لوگ گیت، معنی روکنا یا رکنا) ، ہوری ( قدیم صنف گائیکی بھی ہے اور ایک تال کا نام بھی) اور دھروپد ( گائیکی کا قدیم انگ) جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وارث شاہؔ کو علم موسیقی سے اچھی خاصی واقفیت تھی۔ جس کی سند اس بات سے بھی ملتی ہے کہ سنسکرت اور ہندی سیکھے کے لیے آپ نے جوانی میں مدراس کا سفر کیا اور وہاں سے پنڈت وشواناتھ سے کسب فیض کیا۔

علاوہ ازیں آپ نے ہندوؤں کی مقدس کتاب، رامائن اور دیگر ویدوں کا بھی مطالعہ کیا۔ منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے آپ ٹلا بالناتھ ( ٹلا کورکھ ناتھ) بھی جا پہنچے اور وہاں گورکھ ناتھ کے چھبیسویں گدی نشین تیرتھ ناتھ سے ملاقات کی۔ ٹلا میں اقامت کے دوران آپ نے جوگیوں اور ان کے چیلوں کے رہن سہن، رسوم و رواج، ناتھ پنتھ اور یوگ پنتھ کے رموز سے آگہی حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ حصول علم کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک کا سفر بھی کیا۔

حج کی غرض سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور پھر مدینہ منورہ میں روضۂ رسولﷺ پر حاضری دی۔ اس کے بعد ترکی و ایران کا سفر کیا اور وہاں مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت شمس تبریزؒ اور دیگر اولیائے کرام کے مزارات کی زیارت کی۔ آپ پیرس بھی گئے وہاں قلوپطرہ کا بت دیکھا اس کے علاوہ روم و چین کی سیاحت بھی کی جس سے آپ کی وسعت المشربی اور کثیر العلمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اپنے قصے کو اختتام پر کچھ یوں گویا ہوتے ہیں

اگے ہیر نہ کسے کہی ایسی، شعر بہت مرغوب بنایا ای
وارث شاہؔ میاں لوکاں کملیاں نوں، قصہ جوڑ ہشیار سنایا ای


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments