اشرافیہ کے کتے بلی بمقابلہ عام لوگ


اب سے کچھ دن پہلے حکومت پاکستان نے درجنوں امپورٹڈ اشیاء پر پابندی لگائی تھی، اس پابندی کے بارے میں کچھ حلقوں نے تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

ایک ایسا بھی طبقہ تھا جس نے اگلے ہی روز احتجاج کر ڈالا۔ کراچی کے پوش علاقوں سے چند لوگ اپنی اے سی والی گاڑیوں سے اترے اور چند پلے کارڈ اٹھا کر نعرے بازی کرنے لگے۔ ان کا احتجاج اپنی نوعیت کا مختلف احتجاج تھا کیونکہ وہ احتجاج تھا جانوروں کی امپورٹڈ کھانے پر پابندی لگنے پر ۔ شدید نعرے بازی کرتی ہوئی خاتون سے جب ایک رپورٹر نے سوال پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ”میرا پالتو کتا یہاں کا کھانا نہیں کھاتا، اس کو امپورٹڈ فوڈ ہی سمجھ آتا ہے اور تو اور میں بھی نہیں چاہتی کہ یہاں کا لوکل فوڈ کھلا کر اس کی ہیلتھ پر خراب اثر پڑے“ ۔

اچھی سوچ ہے اپنے پالتو جانوروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں لیکن سچ تو یہ بھی ہے یہ خدمت جانوری کا خیال اشرافیہ کے بڑے طبقے میں موجود ہے یہ وہ ہی اشرافیہ ہے جن کے گھروں میں کتے، بلیاں، گھوڑے اور شیر بھی پلتے ہیں اور خوب عیاشی کرتے ہیں۔ یاد رہے ج سابق وزیر اعظم بھی اپنے محل میں کتا پالتے تھے۔ بہرحال یہ وہ ہی طبقہ ہے جو پاکستانی عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جو بجٹ بناتے ہیں، یہ ہی ہی لوگ ہیں جو گندم، آٹا، تیل، چاول کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں، یہ امیروں میں بھی امیر ہے اور فیصلہ غریبوں کی غربت بڑھانے کا کرتے ہیں۔

میرے غریب ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ سارا نزلہ اور ملبہ عوام پر ہی کیوں گرتا ہے، بلی کا بکرا یہ پبلک ہی کیوں بنتی ہے؟ پیٹرول کی قیمتیں وہ بڑھاتے ہیں جو خود مفت میں پیٹرول حاصل کرتے ہیں۔ عجیب و غریب تہذیب حکومت ہے کہ ایک جانب اپنی مجبوری بتاتے ہوئے عوام پر بوجھ ڈالتے ہیں تو دوسری جانب خود صاحب حیثیت ہونے کے باوجود مراعات حاصل کرنے پر ذرا سا شرمندہ نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ایک اور طبقہ ہے ج مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے اس مافیا میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن پر ٹیکس لاگو تو ہوتا ہے لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

وزیر خزانہ حضرت مفتاح اسماعیل آتے ہیں، اپنی مجبوریاں بتاتے ہیں، پیٹرول کی قیمتیں بڑھاتے ہیں، سر کھجاتے ہیں، مگر غلطی سے اپنے طبقے کی عیش و عشرت میں کمی کا اعلان نہیں کرتے۔ مان لیا یہ کڑوا گھونٹ کبھی نہ کبھی پینا تھا، لیکن یہ کڑوا گھونٹ غریب انسان ہی کیوں پیئے۔ طبقہ اشرافیہ اپنے ناز کم کریں، اپنی مراعات کم کریں، اپنی سبسڈیز کم کریں، اپنے اربوں روپے کے خزانوں سے کچھ خرچ تو کریں، ہم پہ نہ سہی اپنے اوپر ہی کر لیں۔

یہ طبقہ اشرافیہ کس لیول کی مراعات اٹھا رہے ہیں مختصراً یہ سنئے اور محسوس کیجئے۔ ایک رکن قومی اسمبلی کو بنیادی تنخواہ کے علاوہ 12 ہزار سات روپے کا اعزازیہ، آفس مینٹیننس الاؤنس، ٹیلی فون الاؤنس، ایڈ ہاک ریلیف، تین لاکھ روپے کے سفری واؤچرز، اسلام آباد سے دو درجن کے قریب بزنس کلاس کے ریٹرن ٹکٹس، کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس، ہاؤسنگ الاؤنس وغیرہ، یاد رہے یہ بنیادی تنخواہ کے علاوہ ہے۔ یہ ان لوگوں کو حاصل شدہ مراعات ہیں جو خود کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں مگر پھر بھی مراعات لینے سے باز نہیں آتے۔ اس کو عام زبان میں کیا بے شرمی کہہ سکتے ہیں؟

ن لیگ، پی پی، پی ٹی آئی کے کتنے وزیر ارب پتی ہے مگر مراعات پوری چاہیے ہوتی ہیں اور فری کی عیاشی مکمل حاصل کرنی ہوتی ہے۔ یہ ہی نہیں بیوروکریسی کو الگ مزے لگے ہوئے ہیں۔ ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر خوار ہوتے مزدورں کی بے بسی کو جاننے کے دعویدار جھوٹ کہتے ہیں بلکہ بکتے ہیں۔ یہ جھوٹ کہتے ہیں کہ انھیں غریبوں کے درد کا احساس ہے، کتابوں میں غریبی پڑھنا الگ چیز ہے اور غریب کی ذلالت محسوس کرنا الگ چیز ہے۔ کاش کے اس طبقہ اشرافیہ کو غریبوں کا احساس ہو جائے، مگر یہ ناممکن لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments