ریاست بہاول پور بے آب و گیاہ کیوں؟


ماضی قریب میں مملکت خداداد ریاست بہاول پور کو برصغیر پاک و ہند کی امیر ترین ریاست ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے جس کا بنیادی سبب اس کے حکمرانوں کی رعایا پرور پالیسی تھی۔ نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی کی ریاست دوست منصوبہ جات میں سے سب سے اہم ستلج ویلی منصوبہ ہے جس کے تحت 1920 ء میں تین ہیڈ ورکس ’چھ بڑی نہریں اور کئی ایک چھوٹی نہروں کا جال پھیلا دیا گیا۔ اچ شریف کے قریب پنجند ہیڈ ورکس اور دریائے ستلج پر سلیمانکی اور اسلام ہیڈ ورکس بنائے گئے۔

اس منصوبے کی مدد سے لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ہیڈ سلیمانکی سے نہر صادقیہ اور فورڈ واہ نکالی گئیں جو ریاست کے مشرقی حصے کو سیراب کرتی تھیں۔ ہیڈ اسلام سے بہاولپور کینال اور قائم پور کینال نکالی گئی جو ریاست کے وسطی حصہ کو سیراب کرتی تھی جبکہ پنجند سے عباسیہ کینال اور پنجند کینال نکالی گئیں جو ریاست بہاولپور کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کو سیراب کرتا تھا۔ ستلج ویلی پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد نہ صرف ریاست بہاول پور کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا بلکہ اس ریاست کے ریگستانی حصوں کو آباد کرنے کے لئے شمالی اور مشرقی پنجاب سے کاشت کاروں کو مراعات اور مالکانہ حقوق دینے کے وعدے پر مدعو کیا گیا۔

1904 ء میں شائع ہونے والے بہاول پور گزیٹیئر کے مطابق محکمہ تعمیرات عامہ و انہار 1867 ء میں میجر منچن نے قائم کیے ، اس وقت پوری ریاست میں نہروں کی کل تعداد 36 اور راجباہوں کی تعداد 24870 تھی جب کہ نہروں کی کل لمبائی 1600 کلو میٹر سے زیادہ تھی۔ دریائے ستلج کی 180 میل طویل سرحد ریاست بہاول پور کے ساتھ لگتی تھی۔

1960 ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان نہری پانی کے استعمال کا ایک معاہدہ سندھ طاس کے نام پر طے پایا جس کے تحت پاکستان نے تین مشرقی دریاؤں ’راوی‘ بیاس اور ستلج کے زرعی پانی سے دستبرداری اختیار کرلی جبکہ مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔ سندھ طاس معاہدے کی تاریخ کے بغور مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کے وفد کی سربراہی بھارت کے انجینئر این ڈی گلہاٹی اور پاکستان کی بیورو کریٹ جی معین الدین کر رہے تھے، اسی دوران گلہاٹی کی بیوی وفات پا گئی لیکن وہ اپنا کام یکسوئی سے کرتے رہے لیکن جی معین الدین واپسی پر نئی نویلی امریکی دلہن ساتھ لے کر آئے۔

”قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند“ کے مطابق جی معین الدین اور اس کے حواریوں نے سندھ طاس معاہدے میں جان بوجھ کر غفلت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کو بے آب و گیاہ کرنے کی پہلی اینٹ رکھ دی اس کے بعد ہماریا زلی دشمن بھارت نے اس معاہدے کی ہر شق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے خاص طور پر دریائے ستلج کے میدان کو ایسا بنجر کیا جس کی مثال دینا مشکل ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی شق 4 ( 1 ) کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ مشرقی دریاؤں کا پانی زرعی مقاصد کے لئے اب پاکستان کو نہیں ملے گا اس لئے دریاؤں سے نکلنے والی نہروں کے لئے متبادل نظام کے طور پر 6 نئی رابطہ نہریں تعمیر کی جائیں گی۔

تریموں اسلام لنک کینال دراصل واحد رابطہ نہر تھی جس سے ہیڈ اسلام سے نکلنے والی نہروں کو پانی فراہم کیا جانا تھا۔ انٹرنیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ بنک کی 18 اپریل 1960 ء کی ایک رپورٹ کے صفحہ نمبر 4 کے مطابق تریموں اسلام لنک کینال کی مجوزہ گنجائش 11000 کیوسک ہو گی جو دریائے جہلم /چناب کا پانی تریموں کے مقام سے لے کر دریائے ستلج میں ہیڈ اسلام کے مقام پر ڈالتی، اس کینال کی کل مجوزہ لمبائی 106 میل تھی۔

اس لنک کینال پر 5 ریگولیٹریز اور 65 پل بننے تھے۔ اس رپورٹ میں موجود نقشے پر بھی اس لنک کینال کا محل وقوع با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ ستم یہ کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو اس متبادل آبی ذرائع کی تعمیر کے لئے چھتیس ارب روپے دیے گئے لیکن وائے افسوس کہ اس رقم سے سندھ طاس معاہدہ کی مجوزہ بقیہ تمام متبادل اور رابطہ نہریں تو تعمیر ہو چکی ہیں لیکن صرف وہ نہر تعمیر نہیں کی گئی جس کے ذریعے دریائے ستلج میں پانی ڈالا جا تا اور ہیڈ اسلام سے نکلنے والی نہروں کو پانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ صحرائے چولستان کو بھی سیراب کیا جانا تھا۔

سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل II کے تحت یہ متبادل لنک تعمیر کرنے کے لئے مقررہ مدت 31 مارچ 1967 ء تھی لیکن 55 سال گزرنے کے بعد بھی یہ لنک کینال (تریموں اسلام لنک) تعمیر نہیں ہو سکی۔ جس کی بنیادی ذمہ داری نہ صرف خود غرض حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس خطہ کے وہ بے حس سیاسی رہنما بھی ہیں جو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ریاست بہاولپور کے پانی کے لئے صوبائی اور قومی اسمبلی میں آواز اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ تخت لاہور کے مالکان دریائے راوی کو آٹھ متبادل ذرائع سے پانی فراہم کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہ کیا جائے، لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ترجیحات کو علاقائی ضرورت کے تناظر میں طے کیا جائے اور محسن پاکستان نواب صادق محمد خان عباسی کی ریاست کو بے آب و گیاہ اور بنجر ہونے سے بچایا جائے۔ دیکھا جائے تو ریاست بہاول پور کے ساکنان کا بھی وہی حال ہے جیسا ان نشئی حضرات کا تھا جو سارا دن دیوار کو دھکا لگاتے رہے تاکہ اس کو چھاؤں میں کر دیں اور پیچھے سے ان کے کوئی لباس بھی چلتا بنا۔

پانی نہ ہونے کے باعث چولستان کو سیراب کرنے کے لئے 1930 ء اور اس سے قبل بنائی گئی کئی نہریں معدوم ہو چکی ہیں اور ان کے پل اور گزرگاہیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بہاولپور میں تقریباً چونسٹھ لاکھ ایکڑ رقبہ صحرائے چولستان پر مشتمل ہے۔ اسی چولستان سے ملحق سرحد کی دوسری طرف بھارت کا صحرائی علاقہ راجستھان بھی ہے، بھارت نے راجستھان کینال، جسے اب اندراگاندھی کینال کا نام دے دیا گیا ہے، کے ذریعے سرحدی پٹی کو مکمل طور پر سر سبز و شاداب بنا دیا ہے۔

یہ نہر جب تک پنجاب کے ان علاقوں سے گزرتی ہے جہاں زیرزمین پانی میٹھا ہے یا جہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں وہاں ان میں سے کوئی ذیلی نہر نہیں نکالی گئی بلکہ صحرائی علاقوں میں اس نہر کے پانی کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس نہر میں پانی کی گنجائش انیس ہزار پانچ سو کیوسک ہے یعنی تریموں اسلام لنک کینال کی طے شدہ گنجائش سے بھی کم، لیکن اس نہر کی بدولت صحرائے راجستھان کا علاقہ سرسبز و شاداب ہے۔

نہری پانی کی کمی کا شکار ریاست بہاول پور کا زیر زمین پانی بھی دن بدن کھاری ہوتا جا رہا ہے، ستم یہ کہ میں صرف سابق ریاست بہاولپور کے مرکز سے کم از کم 25 کلومیٹر دوری پر رہائش پذیر ہوں لیکن یہاں زیر زمین پانی کا TDSکم از کم 2000 ppmسے 3000 ppmتک ہے۔ اپنے خاندان کو ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے علاوہ گردے اور پیٹ کی بیماریوں سے بچانے کے لئے مجھے یا تو صاف پانی مہیا کرنے والی مقامی کمپنیوں سے پانی خرید کر پینا پڑتا تھا لیکن اب گھر میں موجود فلٹریشن پلانٹ کی بدولت ماہانہ 2000 سے 3000 روپے خرچ کر کے صاف پانی ملتا ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق پانی کے اس کھارے پن کی سب سے بڑی وجہ آبی گزر گاہ کا نہ ہونا ہے۔ ریاست بہاول پور کے آبی مسائل کو دیکھتے ہوئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی اور ریاستی افراد اس جبر اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے سیاسی رہنماؤں کو بھی جھنجوڑ کر جگائیں تاکہ بھارت کی اس غاصبانہ پالیسی کے خلاف احتجاج کیا جا سکے جس کی وجہ سے ستلج کی آبی گزرگاہ میں آبی حیات کے لئے بھی ایک قطرہ پانی نہیں چھوڑا جا رہا، (حالانکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت ہر سال بھارت کو ایک خطیر رقم دیتی ہے کہ وہ دریائے ستلج میں پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑیں ) اس کے علاوہ مقامی سیاسی قیادت بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ ڈالے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے، فوری طور پر ترتریموں۔

اسلام رابطہ نہر کی تعمیر کی ابتدا کرے تاکہ بہاول پور کو مکمل طور پر بنجر اور بے آب و گیاہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ بہاول پور کے باشندے کب تک گدلا اور کھاری پانی پیتا رہیں گے، سفید چاندی یعنی کپاس کی فصل کے کاشت شدہ رقبے میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دن بدن کمی آتی جا رہی ہے۔ نہری پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زرعی پیداوار کی اوسط میں بھی دن بدن کمی آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments