مجید امجد اور ”امروز“


زندگی تلخ ہے۔ مجید امجد انسانوں کو تمناؤں، پچھتاوے اور ناگواری میں الجھا ہوا دیکھ کر اپنی نظموں میں اسی حالت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں کہ انسانی وجود اس قدر پوچ ہے۔ مجید امجد زندگی کا حزن و ملال لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے زندگی کی نا امیدی اور ناپائیداری کو پوری طرح سے ظاہر کرتے ہیں۔ تقدیر، سانحات اور بدقسمتی کی ایک زنجیر ہے جو وقت کی جابرانہ حاکمیت کا باعث بنتی ہے۔ مجید امجد اپنی نظم ”امروز“ میں وقت کی ستم ظریفی اور انسانوں کی بے بسی کو باہم پیوست کرتے ہوئے زندگی کی کڑواہٹ بھری تصویر کشی کرتے ہیں، جس کے وزن سے انسانوں کا دم گھٹتا ہے۔

پہلے بند میں، شاعر ”کنول“ کی مانند تقدیر کے سمندر میں بے مقصد بہتے ہوئے ہر طرح کے عذاب کو برداشت کرتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک وقت کی ہموار سطح کے نیچے بدامنی کی رو موجود ہے جس کی لہریں کمزوروں کے نفس کو ”برباد“ کرتی رہتی ہیں۔ سمندر کا افق ایک آئینہ ہے جو نہ صرف سراب کے ”تھرتھراتے اجالوں“ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ در حقیقت ”سنسناتے اندھیروں“ کو چھپاتا بھی ہے۔ معلوم اور نا معلوم کے درمیاں ہونے والی تقسیم کبھی زنداں کی دیوار سے بھی زیادہ ضخیم ہو سکتی ہے اور کبھی اخبار سے بھی زیادہ لاغر ہو سکتی ہے جس پر کوئی نہیں جان سکتا کہ خبر سچی ہے یا نہیں؟ وقت کی نہ کوئی سرحد ہے اور نہ کوئی ساحل اور آپ کو نہ تو وہاں مینارہ مل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بندرگاہ۔

دوسرے بند میں، شاعر وقت کی فراوانی اور زندگی کی کمی کے درمیان ہونے والے تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ وقت میں صوفیانہ اور مائع دونوں صفات موجود ہیں اور اس لئے پانی وقت کے استعارہ کے طور پر استعمال کرنا مناسب ہوتا ہے۔ وقت کی فراوانی اس آبشار کی طرح طاقتور ہے جس کا پانی ”لازوال“ ہوتا ہے۔ لیکن ہم ہتھیلی میں صرف ایک پیالہ پکڑ سکتے ہیں جو ایک بار اپنی حد تک پہنچ جائے تو آپ اسے مزید نہیں بھر سکتے ہیں۔ وقت کا ظلم اتنا سفاک ہوتا ہے جیسے ہم ”رتھ کے پہیوں تلے پس“ رہے ہوں۔

نظم کے تیسرے بند میں شاعر قدرے مثبت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وقت کی جابرانہ حاکمیت ہونے کے باوجود ہم امروز سے بڑی حد تک لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک ”ابد خزاں کی تعریف ہے جب ہم چڑیوں کو چہکتے ہوئے سن سکتے ہیں، اور ہوا کو تلسی کی شاخ کو ہلاتے ہوئے دیکھ کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا منفرد لمحہ ہوتا ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا! شاعر، نظم کے آخیر میں تذکیہ نفس حاصل کرنا چاہتے ہیں :

یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے

اگر ہم اس نظم کا موازنہ دیگر مغربی ادبی تخلیقات سے کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نظم البرٹ کاموس کے ادبی انداز اور فکر سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ لیکن امجد کے نزدیک ادبی تخلیق محض ایک فنکارانہ اظہار سے زیادہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بقا کی حکمت عملی ہے جس سے شاعر مشکل حالات میں خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments