علی وزیر: ماضی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما کی حمایت میں آواز اٹھانے والی پیپلز پارٹی اب خاموش کیوں ہے؟

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


پشتوں تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے موقع پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں خصوصی شرکت کے لیے سپیکر کے پروڈکشن آرڈرز پر جیل سے بلا لیا گیا تھا۔ تاہم قومی اسمبلی کے حالیہ بجٹ اجلاس میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے تاحال پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جا سکے ہیں۔

یاد رہے کہ جیل میں موجود کسی بھی پارلیمان کے ممبر کی اسمبلی اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کے لیے سپیکر آفس سے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بیانات دینے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما راجہ پرویز اشرف آج کل قومی اسمبلی میں سپیکر کے عہدے کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

علی وزیر کراچی جیل میں قید ہیں اور اُن پر سکیورٹی اداروں پر تنقید اور اشتعال انگیز تقاریر کر کے عوام کو اُکسانے کا الزام عائد ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ علی وزیر کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں، لیکن دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف اس حوالے سے خاموشی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

رضا ربانی نے گذشتہ روز علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرنا ہر رکن کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور کسی رکن کو اس سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل بیشتر جماعتوں کے رہنما اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ایوان میں اور ایوان سے باہر بھی علی وزیر کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کے حق میں تقاریر کرتے رہے ہیں ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت سے فلور آف دی ہاؤس یہ مطالبات بھی کرتے ہیں کہ علی وزیر کی موجودگی کو اسمبلی میں یقینی بنایا جائے۔

ان قائدین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نمایاں رہے ہیں۔

اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر قمر زمان کائرہ سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں آج سپیکر سے بات کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت تمام اراکین اسمبلی کا حق ہے کہ وہ اس اہم اجلاس میں شریک ہوں تاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کر سکیں۔

جب ان سے جب پوچھا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری علی وزیر کے حق میں ماضی میں بڑی بڑی تقریریں کر چکے ہیں اور اب وہ خاموش ہیں تو ان کا یہی کہنا تھا کہ وہ آج سپیکر راجہ پرویز اشرف سے اس بارے میں بات کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ہر رہنما کا جمہوری حق ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس میں شریک ہو اور اپنے حلقے کی نمائندگی کرے اور اس بارے میں وہ سپیکر سے بات کریں گے۔

محسن داوڑ کیا کہتے ہیں؟

علی وزیر اور محسن داوڑ دونوں اراکین اسمبلی کا تعلق جنوبی اور شمالی وزیرستان سے ہے اور دونوں رہنما پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم رکن رہے ہیں۔

محسن داوڑ نے پاکستان تحریک انصاف کے دور میں علی وزیر کو ایوان میں پیش کرنے اور ان کی گرفتاری کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔

علی وزیر

علی وزیر کو تحریک عدم اعتماد کے وقت قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے

محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک المیہ ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمان اور عدلیہ کتنی بااختیار ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے بجٹ اجلاس شروع ہونے سے پہلے سپیکر کو درخواست دی تھی کہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس درخواست کی ضرورت نہیں تھی بلکہ سپیکر کا اپنا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے لیکن سابق سپیکر اسد قیصر نے اس بارے میں درخواست جمع کرانے کا کہا تھا جس وجہ سے انھوں نے درخواست جمع کروا دی تھی۔

محسن داوڑ نے بتایا کہ ’سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اب تک نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اب تک انھوں نے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ان کی کوششیں جاری رہیں گی اور وہ آواز ضرور اٹھائیں گے۔

جب ان سے پوچھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں جب سپیکر اسد قیصر نے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈ جاری نہیں کیے تھے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی آواز اٹھائی تھی لیکن اب وہ خاموش ہیں تو محسن داوڑ نے کہا کہ اس کا بہتر جواب تو وہ خود دے سکتے ہیں اور اگر انھیں کوئی مجبوری ہے تو اس مجبوری کا بھی وہی بتا سکیں گے۔

منظور پشتین، پشتون تحفظ موومنٹ

فائل فوٹو

ان کا کہنا تھا کہ ایک تو فیصلہ نہیں کر پا رہے اور پھر اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں وہ علیحدہ بات ہے کیونکہ ماضی میں سخت مخالف اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے رہے ہیں اور علی وزیر تو مخلوظ حکومت کا حصہ ہیں ان کی پروڈکٹش آرڈر جاری نہ ہونا بہت بڑا المیہ ہے۔

محسن داوڑ نے گذشتہ سال پی ٹی ایم کے پارلیمانی سیاست کے بارے میں موقف کے باوجود اپنی علیحدہ سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکرٹیک موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی لیکن اب تک علی وزیر نے کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا کہ وہ محسن داوڑ کی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں یا وہ آزاد رکن کی حیثیت سے رہیں گے۔

پی ٹی ایم پارلیمانی سیاست کے حق میں نہیں ہے لیکن اس تحریک سے جڑے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور ان میں کچھ کو کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما کیا کہتے ہیں؟

تحریک میں شامل بیشتر رہنما علی وزیر کی گرفتاری کو ’ظلم اور غیرقانونی‘ قرار دیتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ علی وزیر نے اپنے علاقے اپنی قوم اور مظلوم اقوام کے حق کی بات کی تھی اور علاقے میں بد امنی پر آواز اٹھائی جو کہ اُن کا حق تھا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ موجود حکومت میں شامل جماعتیں ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کو غیر جمہوری جماعت اور ایسی جماعت قرار دیتے تھےجو جمہوری اقدار کو پامال کر رہی تھی لیکن اب وہی جماعتیں برسر اقتدار ہیں اور وہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر خاموش ہیں۔

میر کلام وزیر نے کہا کہ جب عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے علی وزیر کی ضرورت تھی تو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے گئے تھے اور علی وزیر نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ان کی رہائی عمل میں لائی جائے گی لیکن رہائی تو دور کی بات ان کو اجلاس میں شرکت کے لیے بھی اجازت نہیں دی جا رہی جو کہ علی وزیر کا آئینی اور قانونی حق ہے۔

یہ بھی پڑھیے

محسن داوڑ بھی شمالی وزیرستان سے گرفتار

پی ٹی ایم کارکنوں کی ہلاکتیں، پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ

سپریم کورٹ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کر لی

علی وزیر کی گرفتاری اور تحریک

علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن کے خلاف کراچی کے تھانہ سہراب گوٹھ میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ان پر پی ٹی ایم کی ایک ریلی کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز تقریر کرنے جیسے الزامات عائد ہیں جس پر انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔

نومبر 2021 میں سپریم کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت منظور کر لی تھی لیکن ان کے خلاف شاہ لطیف تھانے میں بھی ایک ایف آئی درج تھی جس کی بنیاد پر انھیں رہائی نہیں مل سکی تھی۔ شاہ لطیف تھانے میں درج ایف آئی آر کے لیے اُن کی ضمانت کی درخواست چند روز پہلے مسترد کی گئی ہے۔

میر کلام وزیر نے کہا ہے کہ علی وزیر کی ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوتی ہے تو دوسرا مقدمہ اور ایف آئی آر درج کر کے گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments