بجٹ جائزہ


مالی سال 23۔ 2022 ء کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ حالیہ وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 9502 ارب روپے ہے۔ رواں سال بجٹ خسارہ 3798 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد ہے، اور صوبوں کو 800 ارب روپے کے سرپلس کی ادائیگی کے بعد یہ خسارہ 4598 ارب تک پہنچ جائے گا۔ اس بجٹ میں غیر منقولہ جائیداد کے لین دین پر ایک سال تک ہولڈنگ مدت کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا جو ہر سال اڑھائی فیصد کی کمی کے ساتھ 6 سال کے ہولڈنگ مدت کی صورت میں صفر ہو جائے گا۔

جبکہ فائلر کے لیے جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا گیا اور نان فائلر کے لیے جائیداد کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس بڑھا کر 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ حالیہ بجٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور ٹیکس ریونیو کا ہدف 7004 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) کے لیے 800 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جبکہ افراط زر کی شرح کا تخمینہ 11.5 فیصد لگایا گیا ہے۔

بجٹ کے جائزے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے۔ اسی لیے اس بجٹ کا فوکس کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا ہے لیکن حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حکومت کے لیے اپنے ٹارگٹ پورے کرنا نہایت مشکل ہو گا۔ کیونکہ بیرونی قرض کے سود کی ادائیگی کے لیے رواں سال مزید قرض حاصل کرنا پڑے گا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے بھی لازما کچھ نہ کچھ رقم درکار ہوگی۔

ایک محتاط اندازے کا مطابق تقریباً 40 ارب ڈالرز کا مزید قرض رواں مالی سال میں حکومت کو لینا پڑے گا۔ اس کے علاوہ تجارتی خسارہ بھی 50 ارب ڈالرز سے کم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہماری ملکی جی ڈی پی گروتھ ہمیشہ امپورٹ بیس رہی ہے اور محض امپورٹ میں کمی لانے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے میں کسی طرح کامیابی مل بھی گئی تو اس کا لا محالہ اثر جی ڈی پی گروتھ پر پڑے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اولین عرصے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاشی شرح نمو میں تیز رفتار تنزل کی بڑی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے کی گئی درآمدات میں کمی تھی، جس کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی۔

بلا شبہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانا نا گزیر ہے لیکن اس میں کمی کے لیے برآمدات میں اضافے اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کی کوشش ہونی چاہیے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ زراعت کے شعبے میں ریلیف دینے کے لیے ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے۔ گزشتہ سال بارہ تیرہ ارب ڈالرز سے زائد صرف زرعی مصنوعات کا امپورٹ بل تھا، اس شعبے میں سنجیدہ کوشش سے امپورٹ بل میں کافی کمی ہو سکتی ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ پچھلے سال یہ ہدف 5800 ارب روپے تھا جبکہ رواں سال یہ ہدف 7004 ارب رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ہدف بہت زیادہ ہے جس کا حصول موجودہ حالات میں نا ممکن نظر آتا ہے کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانے کے لیے اگر امپورٹ میں کمی گئی تو لازمی بات ہے کہ یہ ہدف حاصل کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں رہے گا۔ دہری مصیبت یہ ہے کہ ملک کے مجموعی محصولات میں زیادہ حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں آتا ہے جو سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی شکل میں خزانے میں جمع ہوتے ہیں لہذا صاف نظر آتا ہے کہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ ہو گا۔

جس کا نتیجہ مہنگائی اور عام آدمی کی زندگیوں میں سنگین مشکلات کی صورت میں نکلے گا۔ پھر مہنگائی کا جو تخمینہ لگایا ہے، اس کی اصل شرح مذکورہ تخمینے سے بہت زیادہ ہو جائے گی۔ حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات میں فوری طور پر کمی کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے لیے بجلی گیس کے شعبے میں گردشی خسارے میں کمی کرنی ہوگی، سبسڈیز کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا اور متبادل توانائی کے ذرائع پر جلد از جلد منتقل ہونا پڑے گا۔

اس کے علاوہ ترجیحی بنیادوں پر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں جیسے پی آئی اے اور اسٹیل مل وغیرہ کی نجکاری ہونی چاہیے۔ ان اداروں میں غیر ضروری ملازمین کی بھرمار ہے اور ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے جمع شدہ قومی خزانے سے ہر سال اس خسارے کی مد میں سینکڑوں ارب خرچ ہوتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے اداروں پر لگایا جانے والا پیسہ بچا کر اگر ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کر دیا جائے تو عوام کے روزگار کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات میں تاریخ ساز اضافے جیسا کڑوا گھونٹ بھر چکی ہے جس سے ملک کا ہر شخص متاثر ہو گا تو میرے خیال میں خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے بھی نہیں گھبرانا چاہیے۔

اسی طرح آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس کے نظام میں بڑے پیمانے پر ہنگامی اصلاحات بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ ملک میں بہت بڑی تعداد چھوٹے دکانداروں اور کاروباری حضرات کی ہے جن کی آمدنی طے شدہ نہیں، اس طبقے سے ٹیکس وصولی کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے۔ سودا وصول کرنے اور اپنی کوئی چیز مرمت کرانے کے بعد ہمارے ہاں نہ بلز کا تقاضا ہوتا ہے اور نہ دیے جاتے ہیں۔ بینکوں کے ذریعے لین دین اور کریڈٹ کارڈز سے ادائیگی کا رجحان بھی بہت کم ہے اور اس کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

لہذا چھوٹے کاروباری طبقہ کے لوگ اول ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے اور اگر کوئی ایف بی آر کے ہتھے چڑھ بھی جائے تو تھوڑا بہت اہلکاروں کو دے دلا کر معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ چھوٹے کاروباری افراد کے لیے اگر فکس ٹیکس مقرر کر دیا جائے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ یوٹیلٹی بلز کی طرح سادہ بنا دیا جائے تو کافی ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں حالیہ بجٹ میں بجلی کے بل کے ذریعے اس ٹیکس کی وصولی کا اعلان اچھا اقدام ہے۔

حکومت کو اب ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے آمدن بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن جب تک ٹیکس کا نظام عام فہم نہیں بنایا جاتا اور امراء کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا اس میں خاطر خواہ کامیابی کا امکان نہیں۔ ٹیکس رقم کا ایک بڑا حصہ پراپرٹی کے شعبے سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ صرف بھارتی شہر بمبئی سے پراپرٹی کے شعبے سے سالانہ سو ارب ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔ ماضی میں نان فائلرز پر ایک خاص رقم سے زائد پراپرٹی کی خریداری سے متعلق قدغن جیسی پالیسیز سے ہمارے ہاں نہ صرف پراپرٹی کا کاروبار تباہ ہوا بلکہ اس کا ملکی معیشت پر بھی بہت برا اثر پڑا۔

اس پالیسی کا مقصد عوام کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا مگر اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا۔ اس سے زیادہ فائدہ تمام شہروں میں درست پراپرٹی ویلیو کا اندازہ لگا کر رجسٹریشن ٹرانسفر کے وقت اصل قیمت کے لحاظ سے ٹیکس وصول کر کے کیا جا سکتا ہے۔ پراپرٹی سے رقم کمانے کے لیے حکومت کو حقیقی مارکیٹ ویلیو پر رجسٹریشن کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان معاملات پر دلیرانہ فیصلے اور اقدامات کیے بغیر ملکی معیشت کو پٹری پر نہیں ڈالا جا سکتا اور آج نہیں تو کل یہ کام کرنا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments