انڈین فوج کی نئی سکیم `اگنی پتھ` پر تنقید اور مظاہرے

ونیت کھرے - بی بی سی ہندی


Protests in Buxar, Bihar
Seetu Tiwari/BBC
Protests in Buxar, Bihar
انڈیا میں نئی اصلاحات کی سکیم کے تحت فوج میں سپاہیوں کی مخصوص مدت کے لیے بھرتیوں کے معاملے پر احتجاج ہو رہے ہیں۔

انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں مظاہرین نے جمعرات کو ٹائر جلائے اور مرکزی شاہراوں کو بند کر دیا۔ یہ مظاہرین حکومت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پولیس کو مظاہرین پر اس وقت آنسو گیس کے شیل پھینکنا پڑے جب مظاہرین نے پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔

اگنی پتھ یا آگ کا راستہ نامی پروگرام جس کی رونمائی جمعرات کو ہی کی گئی تھی کا مقصد یہ ہے کہ ساڑھے 17 سے 21 برس کی عمر کے درمیان نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جائے۔

کامیاب ہونے والے امیدوار فوج میں چار سال کے لیے بھرتی کیے جائیں گے۔ بعد میں ان میں سے 25 فیصد ایسے ہوں گے جو اپنی نوکری جاری رکھیں گے۔

اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ تنخواہ اور پینشن کی مد میں فوج کے اخراجات کو کم کیا جائے کیونکہ اس پر نصف سے زیادہ بجٹ لگ جاتا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے فوج میں نوجوانوں کی نمائندگی بھی بڑھے گی۔ لیکن نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ سکیم ایک دھوکہ ہے جس کا مقصد نوکریاں اور دیگر مواقع پیدا کرنا نہیں ہے۔

مظاہرہ کرنے والے بدھ کو یہ نعرے لگا رہے تھے ہمیں نوکریاں دو یا ہمیں مار دو۔

اس پروگرام پر کئی فوجی جرنیلوں اور دفاعی ماہرین نے بھی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فوج کا ڈھانچہ کمزور ہو سکتا ہے اور اس سے قومی سلامتی پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب انڈیا کی اپنے دو ہمسایوں پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی ہے۔

میجر جنرل شینونان سنگھ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک احمقانہ اقدام ہے، ایک ایسا کام جس سے سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پیسہ بچانا اچھی بات ہے لیکن یہ دفاعی افواج کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ جنگ پر جاتے ہیں ایک تجربہ کار سپاہی کے ساتھ تو کیا اس کی موت کی صورت میں چار سال کے تجربے کے ساتھ کوئی شخص آپ کی جگہ لینے کے قابل ہو گا، یہ چیزیں ایسے کام نہیں کرتیں۔‘

انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ.

اگنی پتھ سکیم کا افتتاح وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کیا

انڈیا جس کی پاکستان کے ساتھ سرحد پر فوج کی بڑی تعداد موجود ہے اب اپنی ہمالیائی سرحد پر بھی چین کے ساتھ کشیدہ صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ انڈین فوج دنیا کی بڑی افواج میں سے ایک ہے۔ فوج کی تعداد 14 لاکھ ہے اور ہر سال لاکھوں افراد بھرتی کے لیے درخواست دیتے ہیں۔

انڈین فوج سے ہر سال 60 ہزار کے قریب لوگ ریٹائر ہوتے ہیں جن کی جگہ نئے لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں لیکن گذشتہ کچھ برس سے انڈیا میں بھرتیاں بند تھیں۔

حکام تو اس کی وجہ وبا کو قرار دیتے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج وسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور اس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اگنی پتھ سکیم کے تحت 46 ہزار سپاہی بھرتی کیے جاییں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ سپاہی چھ ماہ کے لیے تربیت پر جائیں گے اور پھر ساڑھے تین سال تک انھیں تعینات کیا جائے گا۔ اس عرصے کے دوران ابتدا میں انھیں 30 ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی، پھر اضافی سہولیات کے ساتھ یہ چار سالہ ملازمت کے اختتام تک 40 ہزار روپے سے اوپر تک پہنچ جائے گی۔

چار سال کے بعد کیا ہو گا؟

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب چار سال گزر جائیں گے یعنی مطلوبہ میعاد ختم ہو جائے گی تو ان سپاہیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔

20 سالہ ڈیبوجیت بورا جن کا تعلق شمال مشرقی ریاست آسام سے ہے کہتے ہیں کہ میں نے دو سال پہلے فوج میں شمولیت اختیار کی اور میں بہت محنت کر رہا ہوں لیکن اچانک اگنی پتھ سکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔

`اب ہمیں صرف چار سال کام کرنے کا موقع ملے گا۔ تو اگر میں منتخب ہو بھی جاتا ہوں تب بھی میں نوکری سے ریٹائرڈ ہو جاؤں گا۔ میں اس کے بعد کیا کروں گا۔

مزید پڑھیے

انڈین فوج میں 97000 خالی آسامیاں، پھر بھرتی کیوں نہیں ہو رہی؟

انڈین فوج میں افسران کی کمی کتنا بڑا چیلنج ہے؟

جب ایک ملک مسلسل نوکریوں کے حوالے سے بحران کا سامنا کر رہا ہے ایسے میں خاص طور پر یہ خطرے کی بات ہے۔ اپریل میں انڈیا میں بے روزگاری کی شرح سات اعشاریہ آٹھ تین فیصد تک پہنچ گئی۔

انڈیا میں معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک آزاد تھنک ٹینک سی ایم آئی ای کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران لاکھوں انڈین اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وبا سے پہلے ہی انڈیا میں معیشت کی رفتار سست تھی۔

انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سی یم آئی ای کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او مہیش ویاس نے کہا کہ اس صورتحال کے ساتھ ساتھ 15 سے 25 برس کے انڈین نوجوان طویل عرصے سے 20 فیصد بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔

حکومت نے ان تحفظات کو اگنی پتھ کے اعلان کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ بھرتیوں میں آسام رائفلز اور سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کو ترجیح دے گی۔

اگنی پاتھ سکیم کے تحت 46000 سپاہی بھرتی کیے جا رہے ہیں لیکن چار سال بعد ان میں سے فقط 25 فیصد پیچھے رہ جائیں گے

اگنی پتھ سکیم کے تحت 46 ہزار سپاہی بھرتی کیے جا رہے ہیں لیکن چار سال بعد ان میں سے صرف 25 فیصد رہ جائیں گے

لیکن فوجی ماہرین اسے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں فکر ہے کہ یہ اقدام نوجوانوں کو مایوسی کی زندگی میں دھکیل دے گا اور ان کے لیے نوکری کے مواقع کم ہوں گے۔

جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ اب سوال یہ ہے کہ 21 سالہ نوجوان جس نے 10 جماعتیں پاس کیں یا 12ویں جماعت تک پڑھا اور وہ بے روزگار ہے تو وہ نوکری کہاں سے حاصل کرے گا؟

`اگر وہ پولیس میں بھرتی کے لیے جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ وہاں پہلے ہی بہت سے نئے گریجویٹ انتظار میں ہیں تو اس قطار میں اسے انتظار کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ چار سال کے علاوہ بھی کسی نوجوان کے فوجی ڈسپلن میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے یہ بہت ہی کم وقت ہے۔

چار سال میں سے چھ ماہ تو تربیت میں ہی گزارے جائیں گے۔ پھر یہ سپاہی انفنٹری اور سگنلز کے شعبوں میں جائیں گے جہاں انھیں خصوصی تربیت دی جائے گی اور اس میں اور زیادہ وقت لگے گا۔ یہ ایسے نہیں ہے کہ وہ فضائیہ میں پائلٹ بن جائیں گے، وہ مکینک یا گراؤنڈ مین بن جائیں گے۔ تو پھر چار سال میں وہ کیا سیکھے گا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ قلیل مدتی کنٹریکٹ ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنے والے ہزاروں بے روزگا نوجوانوں کی صورت میں بھی ایک خطرہ ہو گا۔

دلی میں موجود ایک تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے منسلک سینئر فیلو سوشانت سنگھ نے رواں برس اپریل میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا واقعی آپ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں تشدد کی سطح پہلے ہی بہت زیادہ ہو، ایسے لوگ چاہتے ہیں جو ہتھیار چلانے کی بہترین تربیت لیے ہوئے ہوں اور نوکری کی تلاش میں ہوں۔

سیاسی امور کے ماہر پرتاپ بھانو مہتا نے انڈین ایکسپریس میں اپنے کالم میں کہا کہ اس کے سماجی سطح پر بہت سے اثرات ہو سکتے ہیں اور اگر اس سے بہتر طور پر نہ نمٹا گیا تو ہم آگ سے کھیل رہے ہوں گے۔

انڈین فوج کا سپاہی

حکومت کی جانب سے یہ توجیہ پیش کی جا رہی ہے کہ اس سکیم کے ذریعے فوج میں جدت لانے میں مدد ملے گی

‘فوج کو جدید کرنے کے لیے اس کی ضرورت تھی

لیکن ہر کوئی اس سکیم پر تنقید نہیں کر رہا۔ ریٹائرڈ میجر جنرل ایس بی استھانہ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے انڈین فوج کو فائدہ ہو گا۔ اس سے فوج کو جدید کرنے میں مدد ملے گی اور اسے مزید جوان ملیں گے جو ٹیکنالوجی سے روشناس ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دینا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ نئی نسل زیادہ باصلاحیت ہے۔ یہ منصوبہ فوج کو یہ آزادی دے گا کہ وہ بھرتی کیے جانے والے سپاہیوں میں سے بہترین 25 فیصد سپاہیوں کو نکال لیں اور باقیوں کو جانے دیں۔

لیفٹینینٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہدا کا کہنا ہے کہ فوج کے تنظیمی ڈھانچے میں فوری تبدیلی کی توقع کرنا غلط ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ `اگر آپ پہلے چار سال کو دیکھیں تو تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار سپاہی بھرتی کیے جائیں گے۔ اور اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ سکیم کیسے کام کرتی ہے۔ کس قسم کی بھرتیاں ہو رہی ہیں اور ان سپاہیوں کو یونٹس میں کیسے ضم کیا جا رہا ہے۔ پھر ہم اس کا جائزہ لیں گے۔‘

اس سے قبل بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پاناگ نے کہا تھا کہ `ایک بڑی فوج صلاحیت کے بجائے تعداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر انڈیا اپنے دفاعی بجٹ کو مزید نہیں بڑھا سکتا اور اس لیے فوج کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مگر مسٹر مہتا اس پر بحث کرتے ہیں کہ انسانوں سے ٹیکنالوجی پر انحصار اور نوجوان سپاہیوں کی پروفائل کو پینشن بِل کی کٹوتی کی توجیہہ کے بجائے مختلف انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہو گی۔

انھوں نے لکھا فوج کو اصلاحات اور مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اصلاحات ایک مضبوط سماجی، پروفیشنل اور سٹریٹیجک سوچ کے ساتھ ہونی چاہیے۔

خاص طور پر جب آپ چاہتے ہیں کہ اصلاحات ہوں تو پھر شاید اندھا دھند تعریف کے بجائے ان کے اثرات کو بغور دیکھنا حب الوطنی کے عین مطابق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments