ایف اے ٹی ایف اور پاکستان: کون جیتا، کون ہارا


فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے چار سال بعد پاکستان کو اپنی گرے لسٹ سے نکالنے کا عندیہ دیا ہے۔ برلن میں منعقد ہونے والے گروپ کے اجلاس نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے اس کی تمام شرائط پوری کردی ہیں۔ اور ان تمام شعبوں میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے شبہ میں 2018 سے گرے لسٹ پر رکھا گیا تھا۔

یوں تو پاکستان 2008 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل رکھا گیا ہے۔ یہ مدت پہلی بار یک سال تھی جبکہ 2011 سے تین سال کے لئے پاکستان گرے لسٹ میں رہا تھا۔ آخری بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ ابھی تک پاکستان اپنی پوزیشن پوری طرح واضح کروانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ برلن میں ہونے والے اجلاس میں اگرچہ یہ اقرار کیا گیا ہے کہ پاکستان نے تمام نکات پر عمل درآمد کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے، دہشت گردی کی حوصلہ شکنی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے مناسب قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ٹیم حکومت پاکستان کے ساتھ طے شدہ شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کر کے تمام اقدامات کا بچشم خود مشاہدہ کرے گی۔ اس ٹیم کی رپورٹ کے بعد ایف اے ٹی ایف کا اجلاس پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا حتمی اعلان کرے گا۔ اس طرح تیسری بار گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کو لگ بھگ چار برس تک اس دن کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ اب بھی اس سال کے آخر تک گرے لسٹ سے نکلنے کا امکان نہیں ہے۔

وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اس طریقہ کار کی تفصیلات بتائی ہیں اور کہا ہے کہ ابھی تک ایف اے ٹی ایف کے فیصلہ کو مکمل کامیابی نہیں کہا جاسکتا لیکن اب پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے اس گروپ کی شرائط ماننے کے لئے تمام مناسب اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے لیکن یہ حتمی اعلان نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں مسلسل عالمی ادارے کے اطمینان کے لئے کام کرتے رہنا چاہیے۔

متعدد ماہرین اس رائے میں یہ اضافہ کر رہے ہیں کہ اس بار گرے لسٹ سے نکلنے کا اعلان ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ اب حکومت پاکستان کو کوشش کرنا پڑے گی کہ ملک میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ پاکستان کو ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے کی نگرانی میں لایا جائے اور اس کے نظام پر شبہات ظاہر ہوں۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ پاکستان مختلف قسم کے وعدے کر کے اور قانون سازی کے ذریعے ہی گرے لسٹ سے نکلا تھا لیکن چند برس بعد دوبارہ اس میں شامل ہونے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں پاکستان کی حکومتیں عالمی سطح پر کیے جانے والے وعدوں پر پوری طرح عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے چند برس بعد ہی دوسری اور پھر تیسری بار پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔

تیسری بار اس فہرست نکلنے کے بعد بھی اگر پاکستانی حکومت اور منتظمین نے یہ حقیقت نظر انداز کی کہ دہشت گردی اور انتہا پسند گروہوں کے بارے میں دنیا بھر میں مسلسل شدید رائے پائی جاتی ہے اور وہ کسی بھی طرح ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں تو اس کے لئے حالات سازگار نہیں رہیں گے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا قیام بھی دراصل دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی روک تھام اور ان کے لئے وسائل کی فراہمی ناممکن بنانے کے لئے ہی عمل میں آیا تھا۔ پاکستان اگر بار بار اس گروپ سے چند وعدے اور اقدامات کرنے کے بعد پھر سے اسی قسم کی بے اعتدالی کا شکار ہو گا تو اسے زیادہ مشکل اور سخت عالمی رد عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ خود داری و خود مختاری کے تمام دعوؤں کے باوجود پاکستان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا اس وقت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے جہاں چین جیسا طاقت ور اور مالدار ملک بھی عالمی نظام سے براہ راست ’بغاوت‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے پاکستان کو بھی احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

اس حوالے سے یہ کہنا بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ عالمی سطح پر بنی نوع انسان کے لئے خطرناک سمجھی جانے والی علتوں کا خاتمہ کرنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کا حصہ دار بن کر ہی کوئی ملک عالمی برادری میں رتبہ، اعتبار اور وقار پا سکتا ہے۔ اس سے گریز اور انکار کا راستہ معاشی تباہی اور سفارتی تنہائی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس وقت شمالی کوریا اور ایران اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یوکرائن پر حملہ کی پاداش میں روس جیسے بڑے ملک کو شدید مالی، سفارتی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ یورپ بڑی حد تک اپنی انرجی کے لئے روسی تیل و گیس پر انحصار کرتا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک کی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے روس و یوکرائن کی اجناس بے حد اہم ہیں۔ اس جنگ کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستان سمیت دنیا کے متعدد غریب ممالک کو شدید مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے متعدد عالمی فورمز پر شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔

پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگرچہ اسے سب سے پہلے 2008 میں ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا لیکن ایک سال بعد ہی اسے اس فہرست سے نکال دیا گیا۔ 2011 یہ مدت بڑھ کر تین سال ہو گئی۔ اس بار چار سال تک پاکستان متعدد اقدامات کے ذریعے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو اپنی خلوص نیتی کا یقین دلاتا رہا ہے لیکن ہر چھے ماہ بعد ہونے والے اجلاس میں کوئی نہ کوئی نئی شرط عائد کی جاتی یا کسی کمی کی طرف اشارہ کر کے اسے دور کرنے کا تقاضا کیا جاتا۔

گزشتہ برس کے آخر میں اس وقت کی حکومت کی شدید خواہش کے باوجود جب پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا اور مزید دو نکات پر کام کرنے کا مشورہ دیا گیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایف اے ٹی ایف کو مالی بداعتدالی کا نگران ادارہ ہونے کی بجائے سیاسی دباؤ ڈالنے کا ذریعہ قرار دیا تھا۔ یہ بات مکمل طور سے غلط نہیں تھی لیکن اس حوالے سے دو باتوں کو فراموش نہیں جا سکتا کہ پاکستان اس سے پہلے 2009 اور 2014 میں گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد تمام عالمی معاہدوں پر پوری طرح عمل کرنے میں کامیاب نہیں رہا تھا۔ عالمی سفارت کاری میں اہم ممالک کے ساتھ دو طرفہ مراسم کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لئے عالمی اداروں کے رحم و کرم پر آئے ہوئے ممالک ان تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں اس شعبہ میں مناسب کام نہیں ہوسکا۔ شاہ محمود قریشی جیسے گھاگ وزیر خارجہ نے بھی سعودی عرب جیسے قریبی دوست ملک کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیان دے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا تھا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی یہی صورت حال مشاہدہ کی گئی ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے ایف اے ٹی ایف کے تازہ بیان کی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی اپنی حکومت کو اس کامیابی کا کریڈٹ دیتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کی رابطہ کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ حماد اظہر کو مبارک باد بھی دی اور کہا کہ ان کی ان تھک کوششوں کی وجہ سے پاکستان کو یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ متعدد مبصر اس بات سے متفق ہیں کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایف اے ٹی ایف کی شکایات دور کرنے کے لئے قانون سازی کی گئی اور پاکستان کا نام صاف کروانے کی منظم کوششیں ہوئیں۔ لیکن ایک ہی روز پہلے عمران خان ایک ویڈیو پیغام میں ملک میں بڑھنے والی مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈال کر عوام سے اتوار کو احتجاج کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ سوچنا چاہیے کہ اگر موجودہ مشکل مالی حالات کا کلی ذمہ دار ایک ایسی حکومت کو قرار دیا جائے گا جس نے 10 اپریل اقتدار سنبھالا تھا تو پھر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ہونے والی کامیابی کا کریڈٹ بھی اسی حکومت کو ملنا چاہیے۔

اس حجت سے قطع نظر دیکھا جاسکتا ہے تحریک انصاف ہی نہیں پاک فوج اور وزیر اعظم شہباز شریف یکساں طور سے اس ’کامیابی‘ کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے چند روز پہلے ایک انٹرویو میں تفصیل سے بتایا تھا کہ کس طرح آرمی چیف کی نگرانی میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے سرگرمی سے کام کیا گیا تھا۔ آرمی چیف نے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا عندیہ دینے کے بعد ایک بیان میں اسے شاندار کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سول و ملٹری حکام نے اس مشکل سے نکلنے کے لئے مل کر ایک ایکشن پلان پر عمل کیا جس کے نتیجہ میں اب پاکستان کو یہ خوشی کی خبر سننے کو ملی ہے اور پاکستان کو فخر کرنے کا موقع ملا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے طور پر اس کا کریڈٹ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں اور پاک فوج کے تعاون کو دے رہے ہیں۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کر کے مبارک باد دی۔

اس حوالے سے جب موجودہ حکومت کی طرف سے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے والے پاکستانی وفد کی قائد وزیرمملکت حنا ربانی کھر سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا کریڈٹ کوئی بھی لے۔ ہمارا کام پاکستان کے مفاد کا تحفظ ہے۔ ہم اس مقصد کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کامیابی کا سہرا کسی کے سر باندھا جاتا ہے‘ ۔ یہ ایک مثبت اور تعصب سے پاک طرز عمل ہے۔ پاکستانی سیاست میں اسی سپرٹ سے کام کر کے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments