سپریم کورٹ میں خلفشار سے عدلیہ پر اعتماد میں کمی آئے گی


گزشتہ دو روز کے دوران سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف چیف جسٹس کو بھیجے گئے دو مراسلے میڈیا میں سامنے آئے ہیں۔ ان دونوں مراسلوں میں درج باتوں پر اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر، یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی عدلیہ کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی اندرونی خلفشار اور اختلافات کا شکار ہے لیکن اس معاملہ پر کوئی مناسب اور مثبت کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلاف رائے ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے۔ یہ اختلاف کسی بھی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ اکثر فیصلوں میں بعض جج قانونی نکات یا شواہد کے بارے میں مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھتے ہیں لیکن اس سے عدالتی وقار پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ البتہ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خطوط کے حوالے سے جو تصویر سامنے آ رہی ہے وہ کسی فیصلہ پر قانونی اختلاف رائے سے بڑھ کر ذاتی بنیاد پر بداعتمادی ظاہر کرتی ہے۔

جسٹس عیسیٰ نے آئینی تفہیم اور اعلیٰ عدلیہ کے طریقہ کار کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب فراہم کرنا ملک میں انصاف فراہم کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے۔ اس سے پہلے بھی قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر اپنی تشویش سے آگاہ کرتے رہے ہیں لیکن ان مواقع پر بھی کوئی خاطر خواہ جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ قبل ازیں وہ اپنے خطوط میں خاص طور سے چیف جسٹس کی توجہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری سنیارٹی کے اصول پر کرنے اور اور اہم معاملات پر بنچ بناتے ہوئے سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے کی طرف مبذول کروا چکے ہیں۔

سنیارٹی کا معاملہ خاص طور سے اس سال کے شروع میں لاہور ہائی کورٹ کی جونئیر جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے وقت سامنے آیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن اس معاملہ پر تقسیم تھا تاہم اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اور حکومتی نمائندوں نے جسٹس ملک کی تعیناتی کے لئے اکثریت حاصل کرلی تھی۔ سپریم کورٹ میں چونکہ اس سے پہلے کوئی خاتون جج موجود نہیں تھی، اس لئے اس تقرری کو عام طور سے مثبت انداز میں دیکھا گیا تھا۔ لیکن اس دوران بہر حال جوڈیشل کمیشن کی طرف سے یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ایک خاتون جج بنانے کے لئے سنیارٹی کے اصول کو وقتی طور سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر اس موقع پر کسی طور یہ یقینی بنا دیا جاتا کہ سنیارٹی ایک اہم اصول ہے جس بہر حال مقدم رکھنا چاہیے تاآنکہ کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیدا نہ ہو کہ اس اصول سے درگزر ضروری ہو۔ اگر یہ وضاحت سامنے آجاتی تو ایک اہم اصولی معاملہ پر جوڈیشل کمیشن میں شامل تمام ارکان میں اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا لیکن ایک سینئر جج کی بار بار نشاندہی کے باوجود اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں سینئر ترین جج کے چیف جسٹس بننے کا اصول عرصہ دراز پہلے طے کر کے ایک اہم عہدہ پر تقرری کے لئے سنیارٹی کی بنیاد کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ بلکہ دوسرے شعبوں مثلاً مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کے لئے اسی اصول کو اختیار کرنے کی بات بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس لئے یہ فطری تقاضا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بھی اعلیٰ عدالتوں میں تقرریوں کے لئے سنیارٹی کے اصول کو مقدس بنیاد تسلیم کرنے کا اعلان کرتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کے علاوہ موجودہ چیف جسٹس کی توجہ اس اہم نکتہ کی طرف مبذول کروا چکے ہیں کہ انہیں اہم قومی معاملات پر بنچ تشکیل دیتے ہوئے سینئر ججوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملہ پر کوئی لچک دکھانے یا اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میڈیا میں کوئی ایسی خبر بھی سامنے نہیں آئی جس سے یہ اطلاع مل سکتی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس خط کا باقاعدہ جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ البتہ جسٹس عیسیٰ کا یہ خط منظر عام پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے بار کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ ضرور واضح کیا تھا کہ بنچ مقرر کرنا اور یہ طے کرنا کہ اس میں کن ججوں کو شامل کرنا ہے، چیف جسٹس کا استحقاق ہے۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر اپنے اختیار و استحقاق کی بات کرتے ہوئے یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کہ عدالت عظمی کے تمام جج سنیارٹی سے قطع نظر ایک ہی رتبہ کے حامل ہوتے ہیں۔ حتی کہ چیف جسٹس کو بھی کسی دوسرے جج پر کوئی واضح برتری حاصل نہیں ہے۔ البتہ منتظم کے طور پر سپریم کورٹ میں باہمی اعتماد کی خوشگوار فضا پیدا کرنا بہر طور چیف جسٹس کے لئے اہم ہوتا ہے۔ اس لئے اگر انتظامی طریقہ کار کے بارے میں کسی جج کی طرف سے اختلاف سامنے آتا ہے تو اسے نظر انداز کرنے کی بجائے، متعلقہ فاضل جج کی شکایت دور کر کے ہی عدالتی وقار کو بلند کیا جاسکتا ہے۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں لیکن اہم معاملات پر بنچوں کی تشکیل میں انہیں مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس سال فروری میں سپریم کورٹ کا سربراہ بننے کے فوری بعد جسٹس اعجازالاحسن کو عدالت عظمی کی سیکورٹی، لائیبریری اور دیگر اہم انتظامی امور کی نگرانی کے اختیارات تفویض کیے تھے۔ حالانکہ یہ فرائض جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی دیے جا سکتے تھے تاکہ ستمبر 2023 میں چیف جسٹس بننے سے پہلے، انہیں سپریم کورٹ کے معاملات کا تجربہ ہوجاتا اور ججوں کے درمیان بدگمانیاں بھی ختم ہو جاتیں لیکن اس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس اپنے بعد چیف جسٹس بننے والے جج جسٹس عیسیٰ کو اپنے ہمراہ کسی بنچ میں شامل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی سربراہی میں کوئی ایسا بنچ بناتے ہیں جس کے سامنے کوئی اہم سیاسی یا آئینی معاملہ پیش ہو۔ یہ طریقہ کار اب اس قدر واضح ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ میں گروہ بندی کی باتیں کھلے عام ہونے لگی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جو دو خط یکے بعد دیگرے سامنے آئے ہیں، ان میں بھی دو دلچسپ امور پر رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ پہلے مراسلہ میں جو اس ماہ کے شروع میں روانہ کیا گیا تھا جسٹس عیسیٰ نے ریٹائر ہونے والے ججوں کے لئے گاڑی فراہم کرنے کے معاملہ پر اعتراض کیا ہے۔ اس اعتراض میں دو پہلو نمایاں ہیں۔ ایک تو وہی جو مراعات کے حوالے سے سوشل میڈیا اور دیگر مباحث میں اکثر زیر غور رہتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے، کیا سرکاری مراعات سے استفادہ کرنے والے گروہوں کو از خود کچھ مراعات لینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ریٹائر ہونے والے ججوں کو گاڑی کی فراہمی کے بارے میں ’فل کورٹ‘ کی منظوری کے لئے تجویز تمام ججوں کو بھیجی تھی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس تجویز کو ناپسندیدہ اور باعث شرم قرار دیتے ہوئے اسے خلاف ضابطہ قرار دیا تھا۔

یہ دلیل عام لوگوں کے لئے دلچسپی کا سبب ہوگی کیوں کہ ایک طرف ہر شعبہ کے مصارف کم کرنے کی بات کی جا رہی ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے رجسٹرار ریٹائر ہونے والے ججوں کو گاڑی فراہم کرنے کی تجویز منظور کروا رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس مراسلہ میں نشاندہی کی ہے کہ فل کورٹ کا آخری اجلاس دسمبر 2019 میں ہوا تھا لیکن ریٹائر ججوں کے لئے گاڑی کا اصول طے کرنے کے لئے فل کورٹ سے منظوری کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ جس حکومت کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر غور ہوں، وہ فل کورٹ کی تجویز کو کیسے مسترد کرسکے گی؟ اس طرح اس معاملہ میں جج خود کو ہی فائدہ پہنچانے والی تجویز منظور کروا کے اپنے عہد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے جس کے تحت کوئی جج اپنے عہدہ کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہیں کر سکتا۔

آج سامنے آنے والے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی چھٹیوں کے دوران مناسب وقت دیے بغیر ججوں کی تقرریوں کے لئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے کی مخالفت کی ہے اور اصرار کیا ہے کہ سنیارٹی کے اصول پر کوئی مصالحت نہیں ہونی چاہیے۔ اغلب امکان ہے کہ ماضی قریب میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کی طرح چیف جسٹس اس اعتراض کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھیں گے۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے یہ گمان کرلینا کہ اس طرح خرابی دور ہو جائے گی یا معاملات کے بارے میں عوام میں پریشانی پیدا نہیں ہوگی، بے بنیاد قیاس آرائی ہوگی۔

ملک کے موجودہ سیاسی بحران میں پارلیمنٹ جیسے جمہوری ادارے کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔ ملک کے سیاسی دھڑے ملکی انتظام کے علاوہ ایک دوسرے کے کردار اور نیت کے حوالے سے سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں فوج اور سپریم کورٹ جیسے اداروں سے بھی افتراق و اختلاف کی خبریں سامنے آنے سے ملکی سلامتی اور نظام کے تحفظ کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے خوف میں اضافہ ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ اس کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ اس کے ایک فیصلہ سے وزیراعظم نا اہل قرار پاتا ہے، ایک آئینی تشریح کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانا پڑتی ہے اور اسمبلی توڑنے کا صدارتی نوٹی فکیشن بیکار کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے اہم ادارے میں اختلاف کو متعلقہ ضابطوں اور طریقہ کار کے مطابق طے کرنا بے حد ضروری ہے۔

اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ اہم قومی معاملات کے بارے میں چیف جسٹس اپنے عہدے کی وجہ سے ہم خیال ججوں کے ذریعے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اہم سیاسی و آئینی معاملات میں فیصلوں کو سپریم کورٹ کے ججوں کی واضح اکثریت کی رائے کا عکاس ہونا چاہیے۔ اسی لئے متعدد حلقوں کی جانب سے ایسے معاملات میں لارجر بنچ یا فل کورٹ بنچ بنانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس ایسے مطالبات کو نظر انداز کرنے کے علاوہ اگر اپنے سینئر ساتھی کی باتوں کو بھی قابل غور نہیں سمجھیں گے تو اس سے کسی کا ذاتی نقصان تو نہیں ہو گا لیکن سپریم کورٹ کی بطور ادارہ شہرت متاثر ہوگی اور نظام عدل پر عوام کا اعتماد مجروح ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments