جہاں سب کچھ پیسے کے لئے ہو


ویسے تو ساری دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی بنیاد پیسہ ہی ہوتا ہے لیکن تیسری دنیا میں عموماً اور ہمارے ملک میں خصوصاً یہ رجحان ہر شعبہ ہائے زندگی میں کچھ زیادہ ہی نظر آ رہا ہے۔ جیسے کہ تعلیم، ہم تعلیم اس لیے نہیں حاصل کرتے کہ ہم معاشرے میں پڑھے لکھے کہلائیں اور باشعور لوگوں میں گنے جائیں بلکہ اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ ہمیں اچھی نوکری یا پھر اچھی جاب مل جائے اس لئے ہم سوشل سائنسز کے بجائے بزنس یا اکنامک سے متعلق فیلڈ کا انتخاب کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تعلیم جیسے پاکیزہ شعبہ کمرشلائزڈ ہو کر علم کے بجائے دولت کی ہوس کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ بلکہ بعض انسٹیٹیوشنز نے تو باقاعدہ اشتہار دیا ہوا ہوتا ہے کہ اتنے عرصے میں یہ کورس یا ڈپلومہ مکمل کر کے باعزت روزگار حاصل کریں۔

نجی اداروں میں تو سوشل سائنسز میں داخلوں کا رجحان زوال پذیر ہے ہی سرکاری تعلیمی درسگاہوں میں بھی یہ رجحان بالکل ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

اسی طرح سیاست میں لوگ اس لیے آتے ہیں کہ وہ پیسہ جوڑ سکیں اور اپنی خستہ حالی کو خوشحالی میں بدل سکیں۔ کچی آبادی سے پکی اور پھر پوش علاقے میں منتقل ہو جائیں۔ یہ سلسلہ ہم گزشتہ چار دہائیوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ سیاست تسلسل سے کچی آبادیوں کے طرز عمل کا آئینہ دار بنتا جا رہا ہے اور راہنما ایلیٹ کلچر میں ضم ہونے کے تگ و دو میں سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں لیکن حاضرہ سیاست کے داؤ پیچ جاننے والے یہ بازی ہارتے کم اور جیتے زیادہ ہیں۔

سیاست خالصتاً پیسے کا گیم رہ گئی ہے اب غریب بندہ لیڈری یا سیاست نہیں کر سکتا البتہ ایک اچھا کیڈر ضرور بن سکتا ہے۔

اس طرح اگر ہم مذہب کی طرف دیکھیں تو ہم ادھر بھی مال و دولت کی فراوانی کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ اس طرح کہ نماز کے بعد جن افراد نے امام صاحب کو دعاؤں کے لئے کہا ہوا ہوتا ہے وہ، وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسجد و مدرسہ سے مالی معاونت میں دست کشائی سے کام لیتے ہیں، جن کا نام مخیر حضرات کی فہرست میں کندہ کیا ہوا ہوتا ہے۔

پوش علاقوں کے مدارس اور مساجد میں اور غریب علاقوں کے مدارس اور مساجد میں وہی فرق نظر آ رہا ہوتا ہے جو ان لوگوں کے ظاہری سٹیٹس میں آتا ہے۔ خیرات زکوٰۃ، فطرہ اور صدقات کے بل بوتے پر تعلقات اور دعا سلام استوار رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں کسی نجی یا کسی سرکاری زمیں کو قبضہ کرنے یا ہتھیانے کے لئے مسجد، مدرسہ یا امام بارگاہ کے شعار لگانے کے گر آزمائے جاتے ہیں پھر اس پر چندہ اکٹھا کرنے کا غیر اخلاقی غیر مہذب اور غیر مذہبانہ قسم کے طرز کے مافیاز کے ہاتھوں جاری و ساری رہتا ہے جس سے اصل لوگوں کی پہچان معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

اسی طرح خیراتی ادارے، این جی اوز، وغیرہ آئے دن لوگوں کی مفت خدمت گزاری کے لئے ہاتھ باندھ کر چاق و چوبند کھڑے نظر آتے ہیں لیکن اتنے فنڈز جمع کرانے کے بعد ان کی اپنی حالت تو دن بدن بلندی کی جانب۔ محو پرواز ہوتی ہیں پر جس مقصد کے لئے یہ کار خیر شروع کیا ہوا ہوتا ہے وہ یا تو اسی جگہ پر رکا ہوا ہوتا ہے یا پھر پستی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف برق رفتاری سے اپنی مسافت طے کرہاً ہوتا ہے۔ ہر کار خیر کا کوئی سابقہ ہمدردانہ اشتہار رمضان، عید، بقر عید پر سڑکوں یا چوراہوں پر بدل بدل کر مزید کار خیر کے لئے نمایاں کیے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے لیکن پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا اور یہ جملہ سن سن کر ہم ادھیڑ عمر تک پہنچ گئے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تو رشتے ناتے بھی پیسوں کو یا پیسے والوں کو دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں، آپس میں رشتہ داری اور بھائی بندی بھی پیسوں سے چلتی ہے۔ یاری دوستی اور تعلقات پیسوں کے سہارے دوام پذیر ہوتے ہیں۔ پیسوں نے اقدار ہی بدل ڈالیں ہیں، پیسوں کے بل بوتے پر بڑے چھوٹے، عزت و توقیر کے مناصب طے کیے جاتے ہیں۔

جن کے پاس بڑا گھر، بڑی گاڑی یا پھر بڑا عہدہ ہو وہ سب سے بڑا گردانا جاتا ہے بھلے موصوف عقل کا بہت چھوٹا اور طفل سماج ہو۔ ہم جب چھوٹے تھے تو بڑے کہا کرتے تھے کہ پیسہ بولتا ہے لیکن ہمیں یہ نصیحت آموز بات سمجھ نہیں آتی تھی اب جب ہم خود اس سماج میں دھکم پیل کھا کر بڑے ہوئے تو نہ صرف یہ بات سمجھ میں آئی کہ پیسہ بولتا ہے بلکہ یہ بھی سمجھ آیا کہ پیشہ سب کچھ کرواتا بھی ہے۔

پشتو روایات میں ٹپہ ایک جہاندیدہ صنف ہے جو پشتون سماج کے ہمہ موضوعات کو موضوع بحث بناتی ہے اور آفاقی صنف سخن مانا جاتا ہے نے اس موضوع کو اپنے پھیلے ہوئے دامن میں کچھ اس طرح سمیٹا ہے

چی دولت راشی عزت راشی
کہ سڑے خر وی پہ جرگو بللے شینہ

جب دولت آجاتی ہے تو ساتھ ساتھ عزت بھی آجاتی ہے، پھر اگر بندہ ”خر“ کیوں نہ ہو جرگے اور پنچایت میں بلایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments