سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ، ووٹ کم لاٹھیاں زیادہ پڑیں


سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ختم ہو گیا، صوبے کے چار ڈویژن کے چودہ اضلاع لاڑکانہ، قمبر ایٹ شہداد کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ، سکھر، گھوٹکی، کندھ کوٹ ایٹ کشمور، خیرپور، نوشہرو فیروز، نوابشاہ، سانگھڑ، عمرکوٹ، میرپور خاص، تھرپارکر میں خون خرابے اور مارا ماری والے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ پرتشدد انتخابات میں کم سے کم تین افراد جاں بحق اور لاتعداد لوگ زخمی ہوئے۔ اطلاعات یہ بھی آ رہی ہیں کہ تشدد اور فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے، لیکن وہ تعداد چھپائی جا رہی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ چودہ اضلاع میں انتخابات کے نتائج پر پیپلز پارٹی کے سوا باقی سب پارٹیوں نے مسترد کر دیا ہے اور انتخابات کی شفافیت میں انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان، جمعیت علما اسلام (ف) ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور قومپرست پارٹیوں نے سندھ کی حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن پر گٹھ جوڑ کے الزامات لگائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے، ہم ایسے انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے۔

جے یو آئی (ف) نے سندھ بھر میں الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے، جب کہ ایم کیو ایم پاکستان نے وارننگ دی ہے کہ اگر اندرون سندھ کی طرح انتخابات ہی کرانے ہیں تو ہم ایسے انتخابات کراچی اور حیدرآباد میں نہیں ہونے دیں گے۔ مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا، الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت پر جانبداری کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں، لیکن سندھ حکومت بار بار اپنے اس موقف پر ہی قائم ہیں کے انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، ان کے مطابق اس بار جو بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں ان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، کچھ ناخوشگوار واقعات کے سوا انتخابات پرامن تھے اور شفاف بھی۔

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ٹرن آؤٹ بھی بہت کم رہا، ایک رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ٹرن آؤٹ تیس فیصد تک رہا اور چودہ اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں یہ ٹرن آؤٹ ثابت کرتا ہے کہ عوام نے اس الیکشن میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، جس کی ایک وجہ گرمی کی شدت بھی بتائی جا رہی ہے، کیوں کے پہلے مرحلے میں جن اضلاع میں انتخابات ہوئے وہاں گرمی کی شدت ہمیشہ ہائی رہتی ہے، شاید اسی وجہ سے گرمی میں ووٹ کم لاٹھیاں زیادہ پڑیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا باقی سب سیاسی جماعتوں کی جانب سے نتائج مسترد کرنے سے ثابت ہو گیا کہ انتخابات میں تھوڑی نہیں کافی گڑبڑ تھی اور اگر دوسرے مرحلے میں اپوزیشن پارٹیوں نے پہلے مرحلے سے سیکھ کر نہیں حکمت عملی بنالی تو بڑی خونریزی ہونے کے خدشات پید ا ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان اندرون سندھ میں موجود اپنی کچھ یوسیز کی قربانی دے سکتی ہے لیکن وہ کسی صورت بھی کراچی اور حیدرآباد اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گی، جب کہ کافی عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی کراچی اور حیدرآباد کی میئر شپ پر نظریں جمی ہوئی ہے، صوبائی وزیر سعید غنی بار بار اس بات کا اسرار بھی کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی اور حیدرآباد کا میئر ہمارا ہو گا، ہم دونوں شہروں کی قسمت بدلیں گے، بدقسمتی سے صوبے میں پندرہ سال سے حکومت ہونے کے باوجود شہروں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا لیکن اب نکلے ہیں قسمت بدلنے۔

اب جو کچھ نظر آ رہا ہے یا یوں کہا جائے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ صوبے کے لئے بہتر نہیں ہو گا، اقتدار کی ہوس صوبے کی تباہی کا عندیہ دے رہی ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے، جب کہ صوبے کی عوام عذاب میں مبتلا ہے۔ شہروں اور دیہات میں لوگ پینے کے صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں، صحت کی بہترین سہولیات نے ہونے پر لوگ تڑپ رہے ہیں، اسکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث خواتین ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر بچے پیدا کر رہی ہے، ایسے حالات میں صوبے کی دو بڑی پارٹیاں دہائیوں سے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں، دونوں نام تو عوام کے حقوق کا لیتی ہے اور نعرہ بھی روٹی، کپڑا اور مکان کان لگاتی ہیں، لیکن عملی طور یہ کام کہی بھی نظر نہیں آتا۔

دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں اقتدار کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی لڑائی چل رہی ہے، جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو صوبے میں کوئی بڑا سانحہ ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کر سکتے، اس لیے خدارا اب قوم پر رحم کریں، صوبے پر رحم کریں اور دونوں پارٹیاں مل بیٹھ کر افہام تفہیم سے معاملات کو حل کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments