انڈیا پاکستان کے درمیان ’1965 کی جنگ ایک سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی‘

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


یہ تحریر ابتدائی طور پر سنہ 2015 میں شائع ہوئی اور قارئین کی دلچسپی کے لیے اسے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سنہ 1965 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کی بنیاد رن آف کچھ کے ویران علاقے میں ہونے والی ایک چھوٹی سی جھڑپ سے رکھی گئی تھی۔

یہ پورا علاقہ ایک طرح کا صحرا تھا جہاں کچھ چرواہے کبھی کبھار اپنی بھیڑ بکریاں چرانے جایا کرتے تھے یا بھولے بھٹکے کبھی پولیس والوں کا دستہ گشت کر لیا کرتا تھا۔

حکمت عملی کے اعتبار سے یہاں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے ہی پر ان کا ریلوے سٹیشن بدين تھا جہاں سے بذریعہ ریل کراچی کا فاصلہ صرف ایک 113 میل تھا۔ پاکستان کی آٹھویں ڈویژن کا یہیں پر ہیڈ کوارٹر تھا۔

دوسری طرف انڈیا کی جانب سے کچھ کے میدان میں پہنچنے کے تمام راستے تقریباً ناقابلِ رسائی تھے۔ سب سے نزدیک 31ویں بریگیڈ احمد آباد میں تھی جہاں سے نزدیکی ریلوے سٹیشن بھوج سے 180 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بھوج یوں تو اس علاقے کا ایک چھوٹا شہر تھا لیکن متنازع پاکستانی سرحد سے 110 میل کے فاصلے پر تھا۔

جھگڑے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب انڈین سکیورٹی فورسز کو پتہ چلا کہ پاکستان نے ڈینگ اور سرائي کو ملانے کے لیے 18 میل طویل ایک کچی سڑک بنا لی ہے۔ یہ سڑک کئی مقامات پر بھارتی سرحد کے ڈیڑھ میل اندر تک جاتی تھی۔ انڈیا نے اس مسئلے پر مقامی اور سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔

پاکستان نے اس کے جواب میں 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو اس علاقے میں مزید جارحانہ گشت کرنے کا حکم دے دیا۔ ادھر مارچ کے آتے آتے انڈیا نے بھی كجركوٹ کے قریب نصف کلومیٹر جنوب میں سردار چوکی بنا لی۔

پاکستان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان نے بریگیڈیئر اظہر کو حکم دیا کہ حملہ کر کے انڈیا کی نئی بنی سردار چوکی کو تباہ کر دیا جائے۔

نو اپریل کی صبح دو بجے پاکستانی حملہ شروع ہوا۔ انھیں سردار چوکی، جنگل اور شالیمار نام کی دو مزید انڈین چوکیوں پر قبضہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’65 کی جنگ میں جب انڈین کمانڈر چھپ گئے‘

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین

جب کراچی کی بندرگاہ انڈین میزائل بوٹس کے حملوں کا نشانہ بنی

بھٹو کا وہ بیان جس کی وجہ سے جنرل ایوب کو سُبکی اٹھانی پڑی

شالیمار چوکی پر تعینات سپیشل ریزرو پولیس کے جوان، مشین گن اور مورٹر فائر کے کور میں آگے بڑھتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ تاہم سردار چوکی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے زبردست مزاحمت کی۔ 14 گھنٹوں کے زبردست حملے کے بعد بریگیڈیئر اظہر نے گولہ باری روکنے کا حکم دیا۔

اس دوران سردار چوکی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار دو میل واپس وجیو كوٹ چوکی پر چلے آئے۔

پاکستانیوں کو اس کا پتہ نہیں چلا اور انھوں نے بھی اپنے فوجیوں کو واپس اسی جگہ پر واپس کرنے کا حکم دیا جہاں سے انھوں نے صبح حملہ شروع کیا تھا۔

شام کو واپس آنے والے جوانوں کو احساس ہوا کہ سردار چوکی پر کوئی بھی پاکستانی فوجی نہیں ہے۔ انھوں نے شام ہوتے ہوتے بغیر لڑے دوبارہ اس چوکی پر قبضہ کر لیا۔

بی سی چکرورتی نے اپنی کتاب ‘ہسٹری آف انڈو پاک وار، 1965’ میں تبصرہ کیا ہے کہ ‘پاکستان کی 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر نے اتنے ہی اناڑی پن سے آپریشن کو ہینڈل کیا جتنا انڈیا کی 31 ویں انفینٹری بریگیڈ کے بریگیڈیئر پہچانی نے۔‘

انڈیا نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میجر جنرل ڈن کو ممبئی سے کچھ بھیجا۔

پاکستان نے بھی اس دوران مکمل آٹھویں انفینٹری ڈویژن کو کراچی سے پاکستانی شہر حیدرآباد بلا لیا۔

اس وقت علاقے میں بریگیڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندرجي نے پولیس کی وردی پہن کر علاقے کا معائنہ کیا اور مشورہ دیا کہ انڈیا کو كجركوٹ پر حملہ کر دینا چاہیے، لیکن حکومت نے ان کے مشورے کو تسلیم نہیں کیا۔

بعد میں یہی سندرجی انڈیا کے آرمی چیف بنے اور اسی علاقے میں انھوں نے سنہ 1987 میں مشہور براس ٹیک فوجی مشق کی جس کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان کی فوجیں تقریباً جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں۔

اس درمیان دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے بھارتی فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ کو فون کر کے پیشکش کی کہ دونوں ممالک کی فضائیہ اس جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھیں۔

اگرچہ اصغر خان نے اپنی سوانح عمری ‘دی فرسٹ راؤنڈ’ میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا لیکن بعد میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ شاید اسی کی وجہ سے جنگ شروع ہونے سے صرف دس روز قبل ایوب خان نے انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر ایئر مارشل نور خان کو پاکستانی ایئر فورس کا سربراہ بنا دیا تھا۔

24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیا۔

انھوں نے اس کے لیے پوری دو ٹینک رجمنٹیں اور توپ خانے کا استعمال کیا اور انڈین فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

اگلے دو دنوں میں انڈین فوجیوں کو بیئر بیت کی چوکی بھی خالی کرنی پڑی۔

انڈیا کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر انڈین فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے۔

بعد میں برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں۔

فرخ باجوہ نے اپنی کتاب ‘فرام کچھ ٹو تاشقند’ میں لکھا کہ اس سے پاکستانی فوج کو کم سے کم محدود سطح پر ہی سہی، انڈین فوج کی صلاحیت کو آزمانے کا موقع ملا۔

انڈیا کے اس وقت کے ڈپٹی چیف جنرل كمارمگلم نے کہا: ‘انڈیا کے لیے کچھ کی لڑائی صحیح دشمن کے ساتھ غلط وقت پر غلط جنگ تھی۔’ اس جنگ میں پاکستان انڈیا پر بھاری پڑا لیکن اس کی وجہ سے ‘پاکستان کو یہ غلط فہمی بھی ہو گئی اور اس کا انھیں بہت نقصان بھی ہوا کہ کشمیر کی جنگ ان کے لیے كیک واک ثابت ہو گی۔’

پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر شنکر باجپئي کاکہنا ہے کہ یہ تصادم انڈیا کے لیے نعمت ثابت ہوا کیونکہ اس سے وہ پاکستان کے عزائم سے باخبر ہو گیا۔

تین ماہ بعد جب پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا تو انڈیا کی فوج ان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments