”سب چلتاہے“ کے عادی ہم لوگ


1985 ء میں جنرل ضیاء نے آٹھ سال تک پھیلے جابرانہ مارشل لاء کے بعد ”پارلیمانی نظام“ بحال کرنے کا جھانسہ دیتے ہوئے ”غیر جماعتی“ انتخابات کروائے تھے۔ انتخاب مکمل ہو جانے کے بعد واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ پارلیمان کی بحالی کا مقصد عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ”اقتدار کی منتقلی“ نہیں ہے۔ انہیں محض ”شراکت دار“ بنایا جائے گا۔

میں ان دنوں جو ان اور سادہ لوح تھا۔ فرض کر لیا کہ ”عوام کی حمایت“ سے پارلیمان تک پہنچے سیاستدان بتدریج منتخب اداروں کو ریاستی فیصلہ سازی کے حتمی مرکز ومنبع میں بدل دیں گے۔ اسی باعث جس انگریزی روزنامہ سے بطور رپورٹر وابستہ تھا اس کے لئے ”پریس گیلری“ والا کالم متعارف کروایا۔ مذکورہ کالم جنرل مشرف کے اکتوبر 1999 ء میں لگائے ایک اور مارشل لاء تک میری صحافت کی کلیدی ترجیح رہا۔ ان دنوں بھی جب پارلیمان کا اجلاس ہو رہا ہو تو اپنے The Nationکے لئے یہ کالم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک ہی روز اگرچہ دو مختلف زبانوں میں کالم لکھنا بڑھاپے میں بہت مشکل ہے۔ نوائے وقت کے لئے ”برملا“ لکھتے ہوئے مجھے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی کی کارروائی پر تبصرہ آرائی کے لئے مگر لازمی ہے کہ پریس گیلری میں بیٹھ کر اس کا بذات خود مشاہدہ کیا جائے۔ آنکھ اور کمر کی تکلیف نے اگرچہ ڈرائیونگ کو بہت تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ صحافت سے عشق کی وجہ سے اسے نظرانداز کرتا رہا۔ قومی اسمبلی جانے کو البتہ اب جی مائل ہی نہیں ہوتا۔

بارہا اس کالم میں آپ کو یاد دلایا ہے کہ منتخب پارلیمان اس نعرہ کی وجہ سے وجود میں آئی تھی جس کے ذریعے خلق خدا نے بادشاہوں کے لگائے محاصل ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عوام متقاضی رہے کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے ہی یہ طے کریں کہ کون سے طبقہ پر کتنا ٹیکس لگانا ہے۔ اس تصور کو No Taxation without Representationکے نعرے سے اجاگر کیا گیا تھا۔ بجٹ کی منظوری گویا منتخب ادارے کا کلیدی حق واختیار و فریضہ ہے۔

جولائی 2022 سے شروع ہونے والے مالی سال کا بجٹ لیکن ایک ایسی قومی اسمبلی کے روبرو منظوری کے لئے رکھا گیا جہاں عددی اعتبار سے سب سے بڑی جماعت یعنی تحریک انصاف موجود ہی نہیں تھی۔ اس کے 125 اراکین نے ”اجتماعی استعفے“ بھیج رکھے ہیں۔ مذکورہ استعفے آج سے تقریباً 3 ماہ قبل اپریل کے آغاز میں بھیجے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے لگائے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے انہیں منظورکرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ سوری صاحب کے فیصلے مگر سپریم کورٹ نے ”غیر آئینی“ ٹھہرادیے۔ قومی اسمبلی بحال کردی اور یہ حکم بھی صادر کیا کہ وہ عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت گنتی کروائے۔ گنتی ہو گئی تو خان صاحب وزیر اعظم نہ رہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جانے کے بعد راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔ وہ ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ”اجتماعی استعفے“ قواعد وضوابط کے مطابق ہیں یا نہیں۔ مصر ہیں کہ جن اراکین نے استعفے دیے ہیں وہ سپیکر کے دفتر میں انفرادی طور پر پیش ہو کر اپنے استعفیٰ کی تصدیق کریں۔ تحریک انصاف ان کی خواہش کو مگر خاطر میں نہیں لارہی۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی عدم موجودگی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے پیش کردہ بجٹ پر سیرحاصل بحث ناممکن تھی۔ بجٹ اجلاس اسی کی وجہ سے اکثر کورم کے بغیر چلتا رہا۔ اوسطا 30 اراکین ہی ایوان میں بیٹھے نظر آتے۔ 342 اراکین پر مشتمل ایوان میں یہ تعداد مذاق کی صورت نظر آتی رہی۔ ہم مگر ”سب چلتا ہے“ کے عادی ہیں۔ خراب انجن اور اناڑی ڈرائیور کے ساتھ محض ”خدا کے سہارے“ ہی گاڑی کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بجٹ منظوری کے عمل کی ”گاڑی“ بھی اسی انداز میں چلتے ہوئے اب اپنی ”منزل“ تک پہنچ چکی ہے۔

”منزل“ تک پہنچتے ہوئے رواں برس کے بجٹ نے پیٹرول، بجلی اورگیس کی قیمتوں کو پہلے ہی سے ناقابل برداشت حد تک بڑھانے کے باوجود مزید گراں کرنے کی ”نوید“ سنائی ہے۔ آئی ایم ایف نے سفاک ساہوکار کی طرح ”بیاج“ کی وصولی کے لئے 50 ہزار روپے ماہوار کمانے والے تن خواہ دار کو بھی نام نہاد ”ٹیکس نیٹ“ میں گھیرلینے کا بندوبست یقینی بنایا ہے۔ ہمیں تسلی دینے کو اگرچہ حکومت نے مختلف دھندوں کے اجارہ داروں سے ”سپرٹیکس“ بھی لگادیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہوس منافع میں مبتلا سیٹھ اس ٹیکس کو ہماری محدود آمدنیوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہی ادا کریں گے۔ غریب کا غریب تر ہونا تو اس کے مقدر میں لکھا بتایا جاتا ہے۔ محاصل کے حصول کا تاہم جو نیا بندوبست آئی ایم ایف کے حکم پر موجودہ حکومت نے متعارف کروایا ہے وہ متوسط طبقے کی کثیر تعداد کو غربت کی جانب دھکیلنا شروع کردے گا۔ شہری متوسط طبقہ اس خوف سے فی الحال ہکا بکا محسوس کر رہا ہے۔ چند ہفتے گزرجانے کے بعد اس کی حیرت غصے میں بدلنا شروع ہو جائے گی۔

ہمارے ”مائی باپ“ تصور ہوتے حلقوں میں اسی باعث یہ سوچ مقبول ہو رہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جمع ہوتے غصے کی نکاسی کے لئے نئے انتخاب کروائے جائیں۔ اس ضمن میں رواں برس کے اکتوبر کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ بات واضح انداز میں نظر آ رہی ہے کہ نئے انتخاب اگر واقعتاً اس برس کے اکتوبر میں ہوئے تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے عمران خان صاحب اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کی جماعت تو ایسے انتخاب کے بعد دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹنے کا خواب بھی دیکھ رہی ہے۔ ان کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے اگرچہ میرے جھکی اور قنوطی ذہن میں صوفیؔ تبسم کا وہ مصرعہ گونجنا شروع ہوجاتا ہے جو نہایت مایوسی سے ”مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا“ والا سوال اٹھاتا ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت میں دیوانگی کی حد تک تقسیم ہوئے موجودہ ماحول میں تاہم اس سوال پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔ تلخ ترین مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے اقتدار میں لوٹ کر آئی ایم ایف کو ٹھینگادکھادیا تو وطن عزیز میں ویسے ہی مناظر رونماہوں گے جو حال ہی میں سری لنکا میں پھوٹ پڑے تھے۔ مزید بحث میں الجھنے کے بجائے یہ فریاد کرتے ہوئے کالم ختم کرتا ہوں : ”اپنے بچنے کی فکر کرجھٹ پٹ“ ۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments