​دہشت گردی اور اگر مگر چونکہ چنانچہ


دہشت گردوں کی کارروائیوں کو بھلائے جانا ممکن نہیں، کوئی مذہب یا معاشرہ ایسی درندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ معصوم، بے گناہ اور نہتے انسانوں کو نام نہاد خود ساختہ نظریات کے تحت نشانہ بنانا کبھی بھی پسندیدہ عمل قرار نہیں پاتا اور ایسا بیان تو قطعی رسمی و بے روح ہوتا ہے کہ ”متاثرہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کی شریک ہیں“ ، راقم ذاتی طور پر اسے لفظوں کا خوب صورت استعمال کیے جانا تو سمجھتا ہے لیکن کسی ایسے خاندان کے غم میں کوئی کیا شریک ہو گا کہ شہید کے دفن ہونے کے بعد صرف اسی کے اہل خانہ زندگی بھر اس کی کمی محسوس کرتے اور ہر تہوار یا غم و خوشی کے دنوں میں اسے یاد کر کے اپنے غم کو کبھی بھولنے نہیں دیتے۔

دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جب ملک میں دہشت گردوں کی انتہا پسندی کا ایسا عروج تھا کہ کوئی مسجد، عبادت گاہ، عوامی مقامات، سرکاری املاک محفوظ نہیں تھی، تو قوم کی طرف سے واحد مطالبہ کیا جاتا تھا کہ دہشت گردوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کہا جاتا کہ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا، تو قوم مطالبہ کرتی کہ سرعام پھانسی پر چڑھایا جائے۔ کہا جاتا کہ سرزمین پاکستان سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔

سانحات، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات پاکستانی قوم کے دکھ اور الم کا باعث بنتے ہیں، چاہے دہشت گردوں کا یہ سمجھنا کہ اس نے کچھ ایسا کر دیا کہ جیسا یہ کوئی کارنامہ ہے، یعنی اس کے مذموم عمل کو ستائش ملے تو یقیناً وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، اس کا یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن درحقیقت اس کا یہ عمل اسے دنیا کے سامنے منکشف کر دیتا ہے کہ اس کے قول و عمل کا کسی بھی مذہب اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں۔

سیاسی جماعتوں اور تمام حکومتی اکائیوں کو کسی بھی قیمت پر شہید کے خون کی حرمت کا سودا، کسی بھی حالت میں کرنے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ بالخصوص سیاسی جماعتوں کو ایسے خاندانوں کو قصہ پارینہ بنانے کی روش کو ختم کرنا ہو گا اور انہیں مسلسل ایسے خاندانوں سے اظہار یکجہتی اور متاثرہ افراد سے رابطے بحال رکھنے چاہئیں تاکہ انہیں اس امر کا احساس ہو کہ ملک و قوم کے لیے قربانی دینے والے خاندانوں کو بھلایا نہیں گیا۔

دہشت گرد اور ان کے سرپرستوں نے ملک عزیز کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا ہے، اسے کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا۔ ایسے گروہوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کسی مصلحت یا مفاہمت کی پالیسی کو اپنانے سے جس قدر گریز کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے، کی جائے اور ملک دشمن گروہوں کا خاتمہ ریاستی اداروں کی پہلی اور آخری ترجیح ہو۔

ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ ملک میں یہ کلچر عام سا ہے کہ ایسے عناصر کی بعض جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے کھلے عام حمایت بھی کی جاتی ہے جن کے ڈانڈے دہشت گردی سے ملتے ہیں۔ یہاں اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی دراصل ان کے سہولت کار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی ہر قسم کی وارداتوں میں سہولت کاروں کا کردار اہم رہا ہے اور ہر واقعے میں سہولت کاروں نے ہی دہشت گردوں کو سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے معلومات اور سامان دہشت گردی پہنچانے کا کام سر انجام دیا، ہمیں ان کی جڑ کو ختم کرنے کے لیے سخت فیصلوں پر ملک و قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ انتہا پسندی کے واقعے میں سہولت کاری کا عنصر موجود ہوتا ہے۔

دوسری جانب ملک کی سیاسی جماعتوں میں سٹڈی سرکل نہ ہونے اور کارکنان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایجوکیٹ کرنے کا کوئی ایسا عمل دیکھنے میں نہیں آیا کہ کارکنان نظریاتی سطح پر انتہا پسندی کا مقابلہ کرسکیں اور منفی ذہن سازی کا تدارک کر کے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ نہیں کی گئی، بس رسمی بیان داغ دیا، بلکہ اکثر تو ان کے جنازوں میں بھی اس خوف سے نہیں جاتے کہ کہیں انہیں نشانہ نہ بنا دیا جائے، ایسے واقعات ہوئے بھی ہیں۔

سیاسی جماعتیں شخصیات کے حصار میں ہیں اور اوپر سے نیچے تک کی سطح پر صرف اپنے سیاسی رہنماؤں کی تعریف و توصیف کرنا، ان کے کسی بھی غلط اقدام کا دفاع اور وکالت کیے جانے کو ہی سیاسی عمل سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اسی عمل نے پریشر گروپ کو طاقت اور اس کوتاہی نے انہیں ہمدردیاں حاصل کرنے میں کمک دی۔ نظریاتی ابہام کی وجہ سے عوام میں تضاد اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کا فائدہ ایسے دہشت گرد گروپ ہی اٹھاتے آرہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی اسی کمزوری کے باعث وہ پریشر گروپ طاقت ور ہوئے جن کی ہمدردیاں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ہیں، بعض گروہ نظریاتی ابہام کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔

آئے روز کے واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے عزائم مخفی نہیں، وہ اپنے مقاصد کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے، خطرات کا ادراک کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کسی بھی صورت نہیں رکنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یکساں موقف اختیار کریں اور اس میں کسی قسم کی اگر مگر یا چونکہ چنانچہ کی گردان شامل نہ ہو۔

دہشت گرد اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر وہ اقدام کیا جانا چاہیے جس کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں، انہیں مالی اور نظریاتی مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ پاکستان کو ترقی کی درست سمت حاصل کرنے کے لیے ملک سے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ دہشت گرد، جن کا کوئی مذہب اور اخلاقیات نہیں، وہ کبھی فلاح کا راستہ نہیں اپنانا چاہتے، بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے مہلت اور ناجائز مطالبات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، جس طرح ماضی میں ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال ہوا، جس کے نتیجے میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے پڑے اور ان کا براہ راست اثر عوام پر ہی پڑا اور انہیں نامساعد حالات کا سامنا ہوا، جس سے آج تک وہ باہر نہیں نکل سکے۔ با اختیار اداروں کو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments