ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کے نام


تصویر پر ایک دیو مالائی قدامت چھائی ہوئی تھی۔ صدیوں پرانی۔ کمرے میں پھیلی سنجیدگی نے ایک تکلیف دہ ماحول بنا دیا تھا۔ اس نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور کہنے لگی ” سامنے تصویر دیکھ رہے ہو؟ اس میں کیا خاص ہے؟“

میں نے ایک دفعہ پھر غور سے تصویر کو دیکھا۔ ایک توانا مرد جس کے سر پر سینگ ہیں اور ایک عورت کا چہرہ جس کا دھڑ گائے کا ہے۔ پس منظر میں آسمان اور سورج، نیچے پانی کا ایک تالاب۔ مجھے اس تصویر میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ میں خاموش رہا اور کچھ نہ بولا۔

اس نے کہا، ” ہم تصورات کو بائنری میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ دن اور رات، خدا اور ابلیس، آگ اور پانی، دریا اور صحرا، مرد اور اور عورت۔ یہ نوع انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم تصورات کو سپیکٹرم کے طور پر نہیں سمجھنا چاہتے۔ ہم تاریخی طور پر اتنے سہل پسند واقع ہوئے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر یہ، یہ نہیں ہے تو یہ، وہ ہو گا۔ ہم یہ نہیں سننا چاہتے کہ یہ اور وہ کے درمیان بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔“

میں نے پوچھا، ” فرض کریں ہم بائنری سے ہٹ کر سوچنا شروع کر دیں تو کیا فائدہ ہو گا۔“

”ممکنات کا ایک لامتناہی سلسلہ۔ ایک لامحدود دنیا جس میں ہر سوال کا جواب ڈھونڈھ نکالا جا سکتا ہے۔ علم میں وسعت ممکنات کو جگہ دینے سے ہی وجود میں آتی ہے۔“

اس نے تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ ” یہ تصویر دیکھ رہے ہو۔ مرد کے سر پر سینگ ہیں۔ وجود کسرتی ہے۔ دونوں علامتیں مرد کو عطا کیے گئے تاریخی کردار کی عکاسی کر رہی ہیں۔ مرد جسے وقت آنے پر طاقت دکھانی ہوتی ہے۔ بیل کی طرح سینگ مارنے ہوتے ہیں۔ مزاج کی گرمی ظاہر کرنی ہوتی ہے۔“

اس نے بات جاری رکھی، ” اور یہ عورت کا چہرہ جس کا دھڑ گائے کا ہے، یعنی قدرے بے ضرر مخلوق جس کا بنیادی کام پیدائش اور افزائش ہے اور جس کی فطرت میں نرمی، بے بسی اور برداشت ہے۔ کیا مرد اور عورت کی پہچان کو ان مخصوص دائروں میں بند کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم بعض اوقات محسوس کرتے ہیں کہ کسی بظاہر مرد میں شفقت ہے، نرمی ہے، ٹھہراؤ ہے اور بظاہر عورت نظر آنے والی، تندخو ہے اور اس کے مزاج میں درشتی ہے؟

میں اب اس کی باتوں میں دلچسپی لینے لگا تھا۔
وہ بول رہی تھی، ” جنس کی پہچان کو صرف انسانی حیاتیاتی ساخت کی بنیاد پر تقسیم کرنا زیادتی ہے۔ ہم تہذیبی اور نفسیاتی ارتقا کی دوڑ میں بہت آگے نکل آئے ہیں۔ اس پہچان کو دو انتہاؤں کے درمیان خصوصیات کے سلسلے کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ یہی سے بائنری کا رد شروع کرنا ہو گا۔“

میں نے سوال کیا، ” جنس کے مخصوص مسئلہ میں جنس کے سماجی ثقافتی، مذہبی یا معاشرتی متعین رول کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے گا؟ حیاتیاتی تقسیم کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو بھی جینڈر رول کے سامنے تو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے؟“

وہ ہلکا سا مسکرائی اور جواباً کہا، ” پتہ ہے جب میں نے مرد پہچان چھوڑی تھی تب میرا دھیان بالکل اس طرف نہیں تھا کہ میں عورت بنوں بلکہ میں صرف سماج کو یہ باور کروانا چاہتی تھی کہ میں کم از کم مرد نہیں ہوں۔ میں وہی جاب کرتی ہوں جو میں پہلے کرتی تھی میری پسند ناپسند بھی وہی ہے جو پہلے تھی بلکہ اس معاملے میں ایک مسلط شدہ پہچان کے ساتھ مجھے اتنی آزادی نہیں تھی جتنی ابھی ہے۔ جب آپ کو جنس سے متعلق سپیکٹرم میں خود کو کہیں بھی فٹ کرنے کی آزادی مل جاتی ہے تب آپ کے لئے جینڈر رولز بھی ایک سپیکٹرم بن جاتے ہیں اور یہ خود پر انکشاف کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔“

اس نے سگریٹ بجھائی اور پوچھا، ” تم جینڈر ٹرانزیشن کے بارے میں کیا کہتے ہو؟“

”مجھے لگتا ہے کہ یہ سیلف ایکچولائزیشن کی معراج ہے۔ آپ ایک قدیم تاریخ اور نفسیات سے ٹکراتے ہیں خصوصاً جب آپ مرد سے عورت تک سفر کرنا چاہتے ہیں۔ پدر سری نظام کے لئے یہ ایک ناقابل قبول دھچکا ہوتا ہے جب ایک مرد، اپنی پوری مردانگی اس کے منہ پر مار کر چلا جاتا ہے کہ نہیں ہے مجھے اس کی ضرورت۔ یہ مردانگی کو بے وقعت کردینے کے مترادف ہے اور اسی لمحہ پدر سری نظام کو اپنے وجود کے بقا کا خطرہ محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

جس کے نتیجے میں آپ کو طرح طرح سے، مذہبی، روایتی، معاشرتی رویوں کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے۔ واپس لانے اور توبہ تائب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب آپ نہیں لوٹتے تب آپ کو تنہا کر کے ذہنی دباؤ اور نفسیاتی علیحدگی سے توڑنے اور مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک ٹرانزیشن کمزور دل لوگوں کا کام نہیں۔ اس کے لئے ضرورت سے زیادہ بہادری درکار ہوتی ہے۔“

میں نے ایک ہی سانس میں اپنا مدعا بیان کیا۔
وہ مسکرائی اور کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کہنے لگی ” ہاں حوصلہ تو چاہیے ہوتا ہے لیکن جب انسان واقعی میں خود کو کھرید کھرید کر اپنی ذات کی آگہی حاصل کرتا ہے پھر اسے نہ سود و زیاں کی فکر رہتی ہے اور نہ ہی من و تو کی۔ مجھے چند سال قبل شدید ذہنی دباؤ کا سامنا تھا۔ مجھے خود سے گھن آتی تھی۔ کیونکہ جس وجودی شناخت کے ساتھ مجھے سب کے سامنے آنا ہوتا تھا اس میں میری روح نہایت پریشان اور بے قرار ہوتی تھی لیکن جس دن میں اپنے اندر کی عورت سے ملی جسے ایک عمر مرد جسم کے استحصال کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس دن مجھے لگا کہ مجھے نروان حاصل ہو گیا ہے۔ مجھے خبر ہو چکی تھی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ کیا کیا تج دینا ہے۔ اس راہ پر تمام تر مصائب کے امکانات کے باوجود یہ ایسا ایک احساس تھا جیسے یوگی کو عرفان مل جائے۔“

اس نے قہقہہ لگایا اور کہا، ” یہ سب تم نہیں سمجھ سکتے اور میں چاہتی بھی نہیں ہوں کہ تم یہ سب سمجھو۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمہارا بدن اور تمہارے اندر کا انسان ایک ہی شناخت رکھتے ہیں۔ خدا سب کو اس تصادم کی اذیت سے بچائے یا پھر بغاوت کی توفیق دے اور یہ شاید آزادی اور رہائی کی دعا ہے۔“

*پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پالیسی ساز، مہرب معیز اعوان ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ ہیں۔ ترقی پسندی اور ماحولیاتی نسائیت پر یقین رکھتی ہیں اور طبقاتی محرومیوں اور نوآبادیاتی نظام کے اثرات کے خلاف جدوجہد ان کا خاصہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کے چند اولین ڈریگ کامیڈی آرٹسٹس میں بھی شمار ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments