پنجاب میں بچے پڑھانے کی بجائے کوڑا اٹھانے کی خدمت سرانجام دیتے اساتذہ


‎قریب تین برس قبل حکومت نے انسداد ڈینگی مہم کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مہم کے دوران کی جانے والی سرگرمیوں کی مقدار اور معیار پر نظر رکھنے کے لیے ایک ایپلیکیشن متعارف کروائی گئی جس کا نام ”اینٹی ڈینگی ایکٹیویٹی“ ہے۔ یہ ایپ گوگل پلے سٹور پر باآسانی دستیاب ہے۔ اس ایپ کو استعمال کرنے کے قواعد و قوانین بھی پیشہ ورانہ تربیتی دوروں اور حکومتی مراسلوں کے ذریعے واضح طور پر متعلقہ سکولوں تک پہنچائے گئے۔ جس میں تصاویر بنانے کے زاویے، جگہوں اور سکول کے لیول کے مطابق ان سرگرمیوں کی تعداد بھی متعین کر دی گئی۔ جس میں پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی سکولز نے بالترتیب پانچ، دس اور بیس تصاویر روزانہ ہر سرگرمی پرفارم کرنے سے پہلے اور بعد میں بنا کر اپلوڈ کرنا ہوتی ہے۔

‎ہر سکول سے ایک ٹیچر کو ان ایکٹیویٹیز کو بذریعہ ایپ مکمل کرنے کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔ اب ہر روز اس کی تعلیم و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم ذمہ داری اس ایپ پر تصاویر اپلوڈ کرنا بھی ہے۔ جس کے بارے میں بلا ناغہ محکمہ پوچھ گچھ کرتا ہے۔ فوکل پرسن ٹیچر موسم سرما، گرما کی تعطیلات سے لطف نہیں اٹھا سکتا ہے۔ اور تو اور عیدین پر بھی اینٹی ڈینگی سرگرمی نہ کرنے پر شو کاز نوٹسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

‎موصوف کی تعلیمی سرگرمیوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ اینٹی ڈینگی ایکٹیویٹیز کی روزانہ کی بنیاد پر جانچ پڑتال کرنا بھی ہے۔ کہ کس سکول کے فوکل پرسن نے ایکٹیویٹیز پرفارم کر لی ہیں اور کن سکولوں نے ابھی نہیں کی۔ اس ضمن میں ایک حقیقی منظر دکھانا چاہتا ہوں۔

‎وہ بدھ کا دن تھا اور میں جس سکول وزٹ پر گیا وہاں بچوں کی تعداد ایک سو تیس تھی لیکن پچھلے کچھ سالوں سے اساتذہ کی نئی بھرتی نا ہونے کی وجہ سے اور دور دراز علاقوں سے آنے والے اساتذہ کے ٹرانسفر کی وجہ سے صرف ایک استاد وہاں رہ گئے تھے۔ اور کوئی کلاس فور ملازم بھی موجود نہ تھا۔ اب ایک استاد اور ایک سو تیس بچے، ان تمام بچوں کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کے افسران کی طرف سے مانگی گئی مختلف معلومات کی بروقت ترسیل اور اینٹی ڈینگی ایکٹیویٹیز مکمل کرنا ایک ناممکن سی صورت حال نظر آتی ہے۔

اس دن جب موصوف بسلسلہ کوالٹی ایجوکیشن بہتر کرنے سکول میں پہنچا تو وہاں ایک عجیب ہی صورت حال دیکھنے کو ملی۔ تمام بچے کلاسز سے باہر گھوم رہے تھے اور کچھ بچے ایک دائرے میں کھڑے ہو کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے چوک کے کسی کونے میں موجود خالی جگہ پر کوئی مداری گر اپنے مداری کے کرتب و جوہر دکھا رہا ہوتا اور لوگ اس کے کرتب دیکھنے میں مگن ہو کر ایک دائرہ کی شکل میں کھڑے ہوتے۔ بچوں کے اس طرح کھڑے ہونے سے میں تیزی سے بھاگ کر اس دائرے کی طرف گیا اور دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ کس طرح میرے اکلوتے اور محترم استاد کوڑا اکٹھا کر کے پہلے اس کی تصویر بنا رہے تھے پھر اس کو کوڑا دان میں ڈالنے کی تصویر بنا رہا تھے۔

اور وہ اس کام میں اتنے مگن تھے کہ میرے آنے کی خبر تک نا ہوئی۔ اب ایک استاد ایک وقت میں ایک کام ہی کر سکتا تھا۔ یہ ایکٹیویٹی مکمل ہوتے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ میرے پاس آئے اور کچھ بولنے ہی لگے تھے میں نے ان کو سلیوٹ پیش کیا کہ ہمت ہے آپ کی جو اس قدر مشکل حالات میں آپ تمام تعلیمی و غیر تعلیمی سرگرمیاں اور احکاماتی کام بروقت کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایسے استاد تھے جنہوں نے اکیلے ہونے کے باوجود کسی کام میں دیر نہ کی تھی اور دو دو کلاسز کو اکٹھے کر کے تین کلاسز بنائی ہوئی تھی۔ انہوں نے کبھی بچوں کو پڑھانے میں کوتاہی نہ کی تھی۔ ان کے اس کوڑا دان کو اٹھانے کے عمل نے مجھے ان کے سامنے شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

‎میرے خیال سے اتنی کم سہولیات والے سکولز کو ایسی غیر تعلیمی ایکٹیویٹیز سے استثناء دے دینا چاہیے۔ اگر ان ایکٹیویٹیز کو روزانہ کی بنیاد پر اپلوڈ کرنا اتنا ہی اہم ہے تو اس کے ٹارگٹس کے کامیاب حصول کے لیے ان سکولوں کو منتخب کر لیا جائے جہاں بچوں کی تعداد کے حساب سے زیادہ اساتذہ موجود ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں سب سے اہم ہونی چاہیے۔ کیونکہ سکولز میں اساتذہ کا اصل مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments