اپنے ضمیر کو اپنا دوست بنائیں


اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف پیدا کیا اور ہر ایک کی سوچنے کی صلاحیت کو بھی مختلف بنایا۔ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت کچھ لوگ صرف دل سے کام لیتے ہیں، کچھ لوگ صرف دماغ کی سنتے ہیں اور بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو یک لخت دل و دماغ سے کام لیتے ہیں۔ انسان دوسرے حیوانوں سے اعلی درجہ پر اس لیے فائز ہوا کیوں کہ اللہ نے انسان کو سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے ہمکنار کیا۔

چند روز قبل میں ایک نجی کام کی غرض سے گوجرانوالہ گیا۔ ڈسکہ واپسی پر راجہ بس پر سوار ہو گیا دوران سفر میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو کہ خود سے ہی باتیں کر رہا تھا۔ پہلے تو میں سمجھا یہ کوئی دیوانہ سا آدمی ہے جو ایسے کر رہا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا تو وہ بالکل نارمل انسان کی طرح فون پہ کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ کیا یہ وہی بندہ ہے جو اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ اسی تجسس میں تھا کہ وہ کیا بات ہے جو وہ اپنے آپ سے ہی کر سکتا تھا کسی اپنی فیملی سے یا قریبی دوست و رشتہ دار سے نہیں کر سکتا تھا۔

میرا دل چاہا کہ میں اس سے بات کروں اور اس سارے معاملہ کی وجہ دریافت کروں۔ اتنے میں اس آدمی کے ساتھ والا شخص گاڑی سے اتر گیا اور اب وہ اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا اور پھر ان کا نام پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سائیکاٹرسٹ ہیں۔ یہ سن کر میں چونک اٹھا اور سوچا کہ کیسے ہم بغیر تحقیق کیے کسی کے ظاہری حلیے سے ہی اس کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔

پھر میں نے بات کو مزید بڑھاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا وہ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اپنے آپ سے کیا باتیں کر رہے تھے۔

انہوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ آپ کو کیسے پتا کہ میں ایسے کر رہا تھا۔ میں کہا ایسے ہی میری نظر آپ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ آپ ایسے کر رہے ہیں تو میرے دل میں ایک تجسس پیدا ہو گیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ وہ کیا باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ایک استاد عنایت صاحب نے مجھے دسویں کلاس میں سمجھایا تھا کہ بیٹا ہمیشہ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے اپنے ضمیر سے ضرور بات کرنا وہ ہمیشہ ایک مخلص دوست کی شکل میں آپ کے اس مسئلہ کے حل کی مکمل راہنمائی کرے گا۔

تب سے ہی میری یہی عادت ہے کہ میں نے کوئی بھی کام کرنا ہو یا کوئی فیصلہ لینا ہو تو میں اپنے ضمیر سے اس کے بارے میں پوچھتا ہوں کیوں کہ ضمیر ہی ایک آپ کا ایسا مخلص دوست ہے جو آپ کو گنجلک مسائل سے نکالتا ہے۔ میں اس کے ساتھ بات کرتا ہوں اور یہ مجھے ہمیشہ ٹھیک راہ بتاتا ہے۔ یہی وہ مخلص دوست ہے جو آپ کے کیے گئے غلط فیصلوں اور غلط کاموں پر آپ کو ملامت بھی کرتا ہے۔ وہ لوگ جو ہمیں برے کاموں مثلاً چوری، ڈکیتی، نا انصافی، ظلم و زیادتی میں ملوث نظر آتے ہیں اس کی اصل وجہ ضمیر کا مر جانا ہوتا ہے۔

اسی لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایسے برے کاموں سے بچ جائیں تو اپنے ضمیر کو کبھی مرنے نا دیں۔ اس کو ہمیشہ اپنا مخلص دوست بنا کر رکھیں۔ اس کی ہمیشہ بات سنیں یہ آپ کو ہمیشہ درست فیصلہ کرنا سکھائے گا۔ اتنے میں کنڈکٹر کی آواز آئی کہ ڈسکہ والے مسافر اتر آئیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ حافظ کہا۔ بس سے اترتے ہوئے میرے ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ اس تھوڑے سے وقت کی گفتگو نے مجھے ڈھنگ سے زندگی گزارنے کا فارمولا بتا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments