نااہل امیدوار: میں نہیں مانتا


حبیب جالب کی اس نظم کا کمال ہے
جن کے بنائے دستور کے خلاف کہی گئی، وہ بھی لہک لہک کے پڑھتے ہیں۔
ایسے دستور کو صبح نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جلسوں میں رونق بڑھانے کے لئے یہ نظم بہت کام کی ہے تاہم اس کے پیغام پے عمل کا ارادہ شاید ہی کبھی کسی جمہوری جماعت نے کیا ہو۔ پاکستانی سیاست توڑ جوڑ، نئے پرانے اتحاد، اتحادیوں سے کام لینے اور ان کے کام آنے کا نام ہے۔

معصوم پبلک شخصیت پرستی، اپنی پارٹی کی خاطر جان دینے اور پارٹی لیڈرشپ کے ہر فیصلے کو فرمان الہی یا ظل الہی ماننے کو ہی سیاسی فریضہ سمجھتی ہے۔ اکثر کو اپنی پارٹی کے صدر اور اس کے بچوں کے نام ہی معلوم ہیں یا پھر اتنا پتہ ہے کہ شیر۔ تیر۔ بلے۔ پتنگ پے ٹھپا لگانا ہے۔

ووٹ دینے کا دوسرا طریقہ اپنے علاقے کے سیاسی، جاگیردار خاندان کے چشم و چراغ کو ووٹ ڈالنا ہے۔ اب یہ سائیں کی مرضی ہے، وہ جس پارٹی سے ٹکٹ لے اکثر تو یہ بھی ہوا کہ دو بھائی دو مخالف پارٹیوں سے قومی اور صوبائی الیکشن لڑ رہے ہیں اور انتخابی مہم شیر و شکر ہو کے چلائی جا رہی ہے۔ گاڑیوں پے دونوں جماعتوں کے پرچم لہرائے، جلوس نکالے جا رہے ہیں اور ہر تقریر میں یہی سمجھایا جا رہا ہے کہ جماعت کوئی بھی ہو، ہم برادری ہیں، ایک ہیں لہذا دونوں کو ووٹ دینا۔

ایسے میں منشور، دستور اور جمہور سب ہی منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

اس بار پنجاب اسمبلی میں ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے مار دھاڑ تک ادھم مچا مگر تحریک انصاف کے منحرف اراکین کسی حال نہ پلٹے، پارٹی نے ممبرشپ منسوخ کی اور تمام ہی ڈی سیٹ ہونے پر اسمبلی سے باہر ہو گئے۔

اب ان نشستوں پے ضمنی انتخابات ہونے کی تیاری ہے اور حسب وعدہ پاکستان مسلم لیگ نواز انہی نشستوں پے دوبارہ انہی اشخاص کو پارٹی ٹکٹ سے نواز رہی ہے۔

رہے ان حلقوں سے نون لیگی ووٹرز تو ان سے رائے لینا کسی نے نہ پہلے ضروری سمجھا تھا نہ اب یعنی پچھلے ساڑھے تین سال ان کے حلقے سے جیتنے والے مخالف پارٹی کے جس ممبر نے ان کے لئے ٹکے کا کام نہیں کیا۔ اب وہ اسے اپنا امیدوار ماننے پے مجبور ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی کالی بھیڑیں بھی ہیں جن کے سیاہ کارنامے کسی سے چھپے نہیں مگر وعدہ تو وعدہ ہے لہذا الیکشن ٹکٹ تو انہی کو دیا گیا ہے۔

سالہا سال سے ووٹر پارٹی کے نامزد امیدوار کو آنکھ بند کر کے ووٹ ڈالتا آیا ہے اس روئیے کے باعث ملک آج ان حالوں کو آ پہنچا کہ اقوام عالم میں ہماری توقیر بلکہ اوقات ” آ بے لونڈے، جا بے لونڈے“ سی ہو گئی ہے۔ ملکی معیشت و معاشیات کا دیوالیہ نکل ہی چکا ساتھ ہی سیاسی اخلاقیات، مخالف کا احترام اور عدم تشدد جیسی روایات بھی گئے وقتوں کا قصہ بن گئیں۔

وقت کی شدید ضرورت ہے کہ آپ کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، کم از کم اپنے حلقے کے لئے یہ چھان بین ضرور کیجئے کہ نامزد امیدوار اس سے پہلے کیا شہرت رکھتا ہے؟ اس کا سیاسی کیرئیر داغدار تو نہیں؟ انتخابی مہم کے دوران دھونس، دھمکی، ظلم اور تشدد اس کی روایت تو نہیں؟

اس کے ہاتھ کوئلے کی دلالی سے کالے یا کسی بے گناہ کے خون سے لال تو نہیں؟

اگر ایسا ہے تو اپنی پارٹی سے احتجاج کیجئے کیونکہ یہ آپ کا حق ہے کہ اپنے حلقے سے ایک ایمان دار اور بہتر انسان منتخب کریں۔ آپ پارٹی سے مخلص ہیں تو پارٹی کا بھی فرض ہے کہ آپ کی منشاء کا خیال کرتے ہوئے، آپ کی مرضی کا امیدوار نامزد کرے۔

اسمبلیوں تک پہنچانے والے ووٹر کو خود دیکھنا ہو گا کہ وہ کسے اور کیوں ووٹ دے رہا ہے؟
اس بار اگر یہ نہیں ہو پایا تو کم سے کم اگلے انتخابات کے لئے اس بات کا خیال رکھیں۔

جمہوریت کی علم بردار اور جمہوری عمل کی سرخیل جماعتوں کو مفادات کی بنیاد پے نہیں کردار اور قابلیت کی کسوٹی پر اپنے امیدوار منتخب کرنے ہوں گے ورنہ جیسے تبدیلی کے نعرے پے تبدیلی نہیں آئی، بہتری کے خواب کی تعبیر بھی نہیں ملے گی۔

اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ نا اہل نامزدگی پے اپنی پسندیدہ پارٹی کو کہہ دیں کہ ہم ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے کیونکہ میں نہیں مانتا! میں نہیں مانتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments