برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن کا پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ، اکتوبر تک وزیراعظم رہیں گے


بورس جانسن
برطانیہ کے وزیرِاعظم بورس جانسن نے یکے بعد دیگرے کابینہ کے وزرا کے استعفوں سے پیدا ہونے والے سنگین سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے تاہم بورس جانسن موسم خزاں تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

اس دوران پارٹی کا نیا رہنما چننے کا مرحلہ طے کیا جائے گا، جس کے بعد اکتوبر میں ٹوری پارٹی کانفرنس سے قبل بورس جانسن کی جگہ نیا وزیر اعظم منتخب کیا جائے گا۔

برطانیہ کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائشگاہ 10 ڈاوئننگ سٹریٹ کے مطابق بورس جانسن آج ایک بیان جاری کریں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بیان میں بورس جانسن پارٹی عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ چند دنوں میں برطانوی وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ رہا تھا اور اسی سلسلے میں ان کے 50 کے قریب وزرا نے بھی ان پر عدم عتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

بورس جانس کی پارٹی کی حالیہ بغاوت کی وجہ ایک سکینڈل بنا جس میں برطانوی وزیراعظم کے ڈپٹی چیف وہپ کرس پنچر پر الزامات تھے۔ بورس جانسن کے پارٹی کے لوگوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے اس سکینڈل سے درست طریقے سے نہیں نمٹا۔

برطانوی وزیر اعظم پر جمعرات کو دباؤ کیسے بڑھا؟

24 گھنٹوں میں ریکارڈ استعفوں کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن پر خود مستعفی ہونے کا دباؤ جمعرات کی صبح تک مزید بڑھ چکا تھا۔

جمعرات کو شمالی آئرلینڈ کے سیکریٹری برینڈن لیوس وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے کابینہ سے یہ کہتے ہوئے استعفی دیا کہ ’معاملات اب معمول پر واپس نہیں آ سکتے۔‘

ان کے بعد کئی دیگر وزرا نے بھی استعفیٰ دیا لیکن اس دوران وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے مکمل خاموشی رہی۔

صرف دو دن قبل تعینات ہونے والے چانسلر ندھیم زہاوی نے بھی وزیر اعظم کو استعفی دینے کا مشورہ دیا جبکہ اس کے کچھ ہی دیر بعد حال ہی میں تعینات ہونے والی سیکریٹری تعلیم مشیل ڈونیلین نے بھی استعفی دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم سے بھی استعفی دینے کی اپیل کرتی ہیں۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد یہ خبر سامنے آئی کہ بورس جانسن مستعفی ہونے پر رضامند ہو چکے ہیں جو گذشتہ رات تک ڈٹے ہوئے تھے۔

بورس جانسن کے متبادل کی تلاش

بورس جانسن

یہ بھی پڑھیے

بورس جانسن کی وہ غلطیاں جن کی وجہ سے ان کے وزیر یکے بعد دیگرے مستعفی ہو رہے ہیں

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر تنازع کیوں؟

پارٹی میں بغاوت کے باوجود برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب

بی بی سی کے سیاسی امور کے نامہ نگار آئن واٹسن کے مطابق بورس جانسن کے متبادل کی تلاش کی مہم شروع ہو چکی ہے۔

اگرچہ کہ ابھی بورس جانسن نے باضابطہ طور پر استعفیٰ نہیں دیا لیکن ان کی جگہ کون لے گا، اس سوال کے جواب کی تلاش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس عہدے کے کئی طلبگار ہیں جن میں سویلا بریومین اپنی خواہش کا برملا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ برطانیہ کی اگلی وزیر اعظم بننا چاہیں گی۔

ان کے علاوہ پینی مورڈانٹ، ٹام ٹگینڈھیٹ اور جیریمی ہنٹ بھی چند اہم نام ہیں جو بورس جانسن کی جگہ لے سکتے ہیں۔

کنزرویٹیو پارٹی ایم پی رابرٹ بک لینڈ نے بورس جانسن کے اس فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ ان کے ساتھیوں کے خیالات نے بورس جانسن کو مجبور کر دیا ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ بورس جانسن بریگزٹ پر جمود کو توڑنے میں کامیاب رہے لیکن امید ہے کہ اب قانون کے مطابق آزادی کی اقدار کو واپس لایا جا سکے گا۔

واضح رہے کہ بورس جانسن 2019 میں پارٹی کی سربراہی کا مقابلہ جیتنے کے بعد وزیر اعظم بنے تھے، جب انھوں نے پانچ ماہ بعد الیکشن میں بھاری اکثریت بھی حاصل کی تھی۔

بورس جانسن نے یہ الیکشن بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے نعرے پر لڑا تھا لیکن ان کی حکومت حالیہ ماہ کے دوران متعدد تنازعات کا شکار رہی۔

ان میں لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری رہائش گاہ پر پارٹی کے الزام میں پولیس کی تفتیش بھی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments