اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ فوج کو من مانی سے روک سکے گا؟


اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ زمین پر فوج کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس علاقے پر فوجی اداروں کے تصرف اور اسے کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کو غیر آئینی اور بلا جواز قرار دیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس قسم کی کارروائی قانون کی بالادستی کو چیلنج کرتی ہے اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا لکھا ہؤا 108 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ مسلح افواج کو آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہنے کا پابند کرتا ہے۔

اس فیصلہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ متعدد شعبوں میں فوجی ادارے غیر قانونی طور سے اقدامات کرتے رہے ہیں تاہم حکومت کی کمزوری اور واضح اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے افواج کی ان تجارتی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کی جاتی۔ اسلام آباد کے نیشنل پارک کے رقبہ کی حفاظت کے لئے جاری ہونے والا تازہ فیصلہ صرف ریاستی املاک پر ناجائز قبضہ کی ہی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ اس مزاج کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ فوج کے زیریں ادارے مسلمہ قانونی طریقہ کار اور حکومتی اختیار کو تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک میں قائم ہونے والی تمام حکومتیں فوجی اثر و رسوخ میں رہی ہیں۔ یا تو انہیں براہ راست مداخلت کی وجہ سے مسلط کیا گیا تھا یا فوج کے خاموش تعاون کی وجہ سے کوئی حکومت کام کرسکی تھی۔

سیاست میں بڑھتی ہوئی فوجی مداخلت ہی کی وجہ سے ملکی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم مقررہ مدت تک اقتدار پر قابض نہیں رہ سکا۔ کسی نہ کسی معاملہ پر فوج کا سویلین حکومت کے ساتھ اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سیاست دانوں میں اپنے مہروں کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی برسر اقتدار پارٹی کی سیاسی پوزیشن کمزور کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ اس سال اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اس فوجی بالادستی اور سیاسی اختیار کی محض ایک مثال ہے۔ گو کہ شہباز حکومت اور اتحادی پارٹیاں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کو جائز آئینی و پارلیمانی طریقہ قرار دینے پر مصر ہیں۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ اس طرح ملک میں پہلی بار یہ روایت استوار کی گئی ہے کہ اگر کوئی حکومت غلط کام کرے گی اور ملکی معاملات خراب کرنے کا سبب بنے گی تو اپوزیشن اس کے خلاف ملک کے مروجہ آئین کے مطابق کارروائی کرسکتی ہے۔ 9 اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک کو اسی طریقہ کی ’روشن مثال‘ قرار دیا جاتاہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی بہر حال ریکارڈ کا حصہ ہے کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کو ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی کا تعاون حاصل کرنا پڑا تھا۔ یہ دونوں چھوٹی پارٹیاں تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ تھیں لیکن ملکی ماحول میں ظاہر اور خفیہ اشاروں کے سبب انہوں نے عمران خان کے ڈولتے اقتدار کی کشتی سے کود کر اتحادی جماعتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ان چھوٹی مگر عددی اعتبار سے اہم پارٹیوں کو کیوں اچانک عمران خان کی قیادت میں ملک کا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا تھا۔

اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے بے ضرر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم کے تحت معزول کیا گیا اور یہی ہتھکنڈا نواز شریف کے خلاف بھی بروئے کار آیا۔ ان دونوں صورتوں میں اگرچہ بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں قائم رہیں لیکن انہیں دوسرے لوگوں کو اس عہدے پر منتخب کروانا پڑا اور درپردہ یہ اعتراف بھی کرنا پڑا کہ وہ مستقبل میں ان ’ریڈ لائنز‘ کے اندر مصروف عمل رہیں گے جو کسی بھی منتخب حکومت کے لئے متعین کی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہی ریڈ لائنز اس ملک میں سویلین بالادستی کو کمزور اور عسکری اختیار کو مستحکم کرنے کا سبب بنی رہی ہیں۔ ملکی سیاست میں مسلسل عوامی طاقت کا ذکر ہوتا ہے لیکن عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے بھی یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ طاقت ور عناصر سے سلسلہ جنبانی جاری رہے۔ گویا ووٹ کی طاقت اپنی جگہ آئینی وپارلیمانی طریقہ ہے لیکن اس طاقت کو مؤثر بنانے کے لئے بہر صورت عسکری حلقوں کی تائد حاصل کرنا اہم ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شہباز حکومت بھی کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے راولپنڈی سے اشاروں کا انتظار کرتی ہے اور عمران خان بھی کبھی دھمکی اور کبھی منت سماجت سے سابقہ ’غلطیوں‘ کا اعتراف کرکے مستقبل میں ’اچھا بچہ‘ بنے رہنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ البتہ سب سیاست دان خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، آئین سے وفاداری سے زیادہ باہمی دشمنی نبھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ لیڈر نظام کی بجائے شخصیات کو اہم اور ناگزیر سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے نواز شریف کے بغیر پارٹی معاملات چلانا ممکن نہیں ہے حالانکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت انہیں کسی بھی سرکاری عہدے یا انتخاب میں حصہ لینے کا نااہل قرار دے چکی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کا کوئی شخص عمران خان کے بغیر پارٹی کی کامیابی حتی کہ اس کے وجود کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔ شخصیات میں گھری سیاست ہی کا نتیجہ ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کو حکومت کے دورانیہ میں کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے یا قوم سے خطاب کرتے ہوئے تمام حالات عام کرنے کی بجائے، انہی پراسرار قوتوں سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتاہے جن کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہی درحقیقت بحران پیدا کرنے کا سبب بنی تھیں۔

جھنگ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر پاکستانی جمہوریت کا برطانوی جمہوریت سے مقابلہ کیا اور کہا کہ دیکھو وہاں بورس جانسن کو محض کورونا قواعد کی خلاف ورزی پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا لیکن پاکستان میں اقتدار سے چمٹے ہوئے بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف کوئی کارروئی نہیں ہوسکتی۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کا یہ تجزیہ درست ہو لیکن اگر وہ واقعی اس اصول کو درست مانتے ہیں کہ وزیر اعظم کی کسی بے قاعدگی کے سبب اسے اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے تو بنی گالہ کو ریگولر کروانے، گھر سے وزیر اعظم ہاؤس آنے کے لئے ہیلی کاپٹر کے بے دریغ استعمال یا توشہ خانہ کے قیمتی تحائف کوڑیوں کے مول خرید کر بازار میں فروخت کرنے والے کسی وزیر اعظم کو برطانیہ جیسی کسی جمہویت میں عہدے پر فائز رہنے کا حق دیا جاتا؟ اگر عمران خان اس سوال کا درست جواب جان لیں تو ان کے سیاسی بیانات کی گونج خود ہی ماند پڑ جائے گی۔

سازش اور ضمیر فروشی کے الزامات کی بنیاد پر اپنی سیاست بچانے کی کوشش میں مصروف عمران خان کو یہ بھی نوٹ کرنا چاہئے کہ جیسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کمرشل مقاصد کے لئے فوج کی من مانی کا پردہ فاش کیا ہے ، اسی طرح سپریم کورٹ کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ عدالت عظمی نے اس فیصلہ میں واضح کیا ہے کہ عدالت عدم اعتماد کے لئے کسی غیر ملکی سازش کی دلیل سے مطمئن نہیں تھی۔ فیصلے کا یہ حصہ سابق حکومت کی تازہ ترین سیاسی مہم جوئی کے خلاف حکم کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ذاتی حرص کے اسیر سیاست دان اس پہلو پر غور نہیں کرتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پارک کی زمینوں پر فوج کے تصرف اور اسلام آباد کے ای۔ 8 میں پاک نیوی کے زیر انتظام چلنے والے گالف کورس کی تعمیر کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے درحقیقت مسلح افواج کے عمومی طرز عمل کی نشاندہی کی ہے۔ عسکری اداروں کے اس طریقہ اور رویہ کو تبدیل کئے بغیر ملکی سیاست میں عوامی بالادستی کا آئینی اصول مستحکم نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس کے لئے سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو فوج کی سرپرستی کی تگ و دو کرنے کی بجائے، عسکری اداروں کو ان حدود کا پابند کرنا ہوگا جن کی نشاندہی کسی حد تک چیف جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی فیصلہ میں کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس فیصلہ میں نے قرار دیا کہ آئین کے تحت تینوں مسلح افواج وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں اور صدر پاکستان افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ آرمڈ فورسز کو اپنے دائرہ کار سے باہر بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینے کا اختیار نہیں اور نہ ہی پاکستانی فوج کسی سٹیٹ لینڈ (ریاست کی زمین) کی ملکیت کا کوئی دعویٰ کر سکتی ہے۔مسلح افواج کا کام بیرونی جارحیت سے ملک کا دفاع اور طلب کیے جانے پر سول اداروں کی معاونت ہے۔ مسلح افواج دونوں ذمہ داریاں وفاقی حکومت کی اجازت سے سر انجام دے سکتی ہے۔ اسےخود سے ایسا کوئی اقدام کرنے کا اختیار و حق حاصل نہیں ہے۔

یہ فیصلہ ایک درست سمت کی طرف نشاندہی کررہا ہے البتہ اس نشاندہی کے تحت منزل تک پہنچنے کے لئے باہمی سیاسی رقابت اور سازشی نظریات کو ترک کرنا ہوگا تاکہ آئین کی بالادستی اور ریاستی اداروں کو قانون و آئین کے تحت لانے کے اصول پر عمل ہوسکے۔ اور عسکری ادارے قانونی طریقہ سے منتخب ہونے والی حکومت کے تابع فرمان رہیں۔ لیکن یہ ایک طویل اور مشکل سفر ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ یوں بھی ملک کا آخری و حتمی عدالتی فورم نہیں ہے۔ اس مقدمہ میں جنوری کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے جب مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا تو سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے یہ کہتے ہوئے یہ حکم معطل کردیا تھا کہ ہائی کورٹ کا زبانی حکم کافی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس علاقے میں دیگر ناجائز طور سے تعمیر ریستورانوں کو نوٹس دئیے بغیر مونال ریسٹورنٹ کے خلاف کارروائی جائز نہیں ہوسکتی۔

غالب امکان ہے کہ مسلح افواج کی زور ذبردستی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا چونکا دینے والا فیصلہ بہر طور سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگا۔ اور کسی نہ کسی قانونی حجت یا کمزوری کی وجہ سے اس حکم کا ’زہر‘ نکالنے کا اہتمام ہوسکے گا۔ البتہ اگر ملکی اقتدار پر قابض عناصر ہوس اقتدار سے بلند ہوکر واقعی ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر عمل کروانا چاہیں اور آئین کی بالادستی کے لئے کام کرنے کا ارادہ کریں تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ نے حکومت کو ٹھوس مواد فراہم کردیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments