پنجاب: مسلم لیگیوں نے ہی مسلم لیگ کو شکست دے دی


17 جولائی 2022 ء کو منعقد ہونے والے پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات بظاہر مسلم لیگ (ن) ہار گئی اور پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں زائد نشستیں جیت کر میدان مار لیا ہے۔ گویا پنجاب جو کبھی مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس تھا۔ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ یہ ضمنی انتخابات اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے نتائج نہ صرف پنجاب کی حکمرانی کا فیصلہ کریں گے بلکہ ملکی سیاست کا رخ متعین کریں گے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پنجاب میں ہونے والے کم و بیش تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے میدان مار کر یہ ثابت کیا ہے کہ پنجاب اس کا پاور بیس ہے۔ اس صوبہ میں مسلم لیگ (ن) ناقابل شکست ہے۔ واقعی پچھلے کئی سالوں سے پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ رہا ہے۔ جہاں مسلم لیگ (ن) مجموعی طور پی ٹی آئی سے 10 فیصد آگے رہی لیکن 11 اپریل 2022 ء کو عمران خان سے تخت اسلام آباد چھیننے کے بعد جب پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم ہوئی تووہ نہ صرف مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں ناکام رہی بلکہ مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا۔ مہنگائی کے جن نے پورے ملک میں تباہی مچا دی۔ مہنگائی میں اضافہ نے جہاں عام آدمی کی ناراضی میں اضافہ کیا وہاں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلندیوں کو چھونے لگا کچھ یار لوگوں نے تو انہیں بھٹو 2۔ کا خطاب دے دیا

ان کی کال پر ملک کے طول عرض میں ہونے والے بڑے جلسوں کو ان کی مقبولیت کا اظہار قرار دیا جانے لگا راقم السطور کبھی بھی بڑے جلسوں کو مقبولیت کا گراف ماپنے کا ذریعہ نہیں سمجھتا کیونکہ جلسوں کی حاضری مقبولیت سے زیادہ پولیٹیکل مینجمنٹ سے ہوتی ہے۔ تاہم عمران خان کے جلسوں میں شرکت کرنے والوں جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ ان کے مقابلے میں مریم نواز کے جلسوں کی حاضری بھی کم نہ تھی۔ مریم نواز نے بھی ٹکر کے جلسے منعقد کیے یہی وجہ ہے میرے سمیت بیشتر سیاسی تجزیہ کار یہی سمجھ رہے تھے مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے مقابلے میں میدان مار لے گی اور اسے باآسانی مطلوبہ تعداد سے زیادہ نشستیں حاصل ہو جائیں گی۔

اگرچہ پاکستان کی ایک نامور انتخابی سروے کرنے والے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی او آر) کے چیئر مین طارق جنید نے ضمنی انتخابات کے انعقاد سے قبل ان کی تیار کردہ رپورٹ کو افشا نہ کرنے کی شرط بتا دیا تھا۔ پی ٹی آئی 10 نشستیں با آسانی جیت رہی جب مسلم لیگ نون 5 نشستوں پر کامیاب ہو گی۔

ان کا سروے ایک نشست کے سوا تمام نشستوں کے بارے میں صحیح ثابت ہوا۔ پی پی 217 ملتان کا انتخابی نتیجہ سرپرائز ہے۔ کیوں کہ سروے رپورٹ کے مطابق سلیمان نعیم کی پوزیشن مستحکم تھی۔ پی پی 7۔ راولپنڈی جرنیلوں اور اعلی فوجی افسران کا حلقہ ہے۔ اسی حلقہ کے مکین لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام ہیں جنہوں نے 2014 ء کے عمران خان کے دھرنے کے حوالے سے بڑی شہرت پائی تھی۔ انہوں نے اس حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار لیفٹیننٹ کرنل (ن) شبیر اعوان کی انتخابی مہم چلائی

اسی حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق کا بھی تعلق ہے۔ انہوں نے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان تو کر دیا لیکن جب ان کا بیان ان کے صاحبزادے راجہ محمد علی کے سیاسی حریف راجہ صغیر احمد کی حمایت میں شائع کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تردید کر دی۔ روایات کے مطابق راجہ صغیر احمد کو راجہ محمد ظفر الحق کے پاس جرگہ لے جانا چاہیے تھا اور راجہ صاحب کو بھی کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ دونوں اطراف سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تاہم راجہ صغیر احمد کانٹ دار مقابلے بعد لیفٹیننٹ کرنل (ر) شبیر اعوان سے چند ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے

پی پی 90 سے سالہاسال کامیاب ہونے سعید اکبر خان نوانی کبھی کسی ٹکٹ کے محتاج نہیں ہوئے۔ مسلسل 8 بار کامیابی حاصل کی لیکن جب سیاسی لغت میں لوٹا بنے تو ہار گئے بھکر کے علاقہ میں جماعتی وابستگی پر برادری کو ووٹ دیا جاتا ہے لیکن اب کی بار بھکر سمیت تمام دیہی علاقوں کے عوام نے جماعتی وابستگی کو ترجیح دی۔ دیہی علاقہ کے ووٹر نے سرپرائز دیا ہے۔ پی ٹی آئی اپنے ڈی سیٹ ہونے والے 20 ارکان کی 15 نشستیں و اپ لینے پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے جب کہ اس کے ہاتھ سے 5 نشستیں چلی گئی ہیں جن کا اسے غم نہیں بلکہ اسے اپنی 15 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے پر جشن منا رہی ہے۔

شنید ہے لودھراں سے منتخب ہونے والے آزاد امیدوار نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اصل معرکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا ہے۔ جہاں رنر اپ کے لئے 22 جولائی 2022 ء کو پولنگ ہو گی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 168 ہو گئی ہے جب کہ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں 15 نشستوں پر کامیابی کے بعد وکٹری سٹینڈ پر 178 ارکان کے ساتھ کھڑی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے 10، پیپلز پارٹی کے سات، 5 آزاد اور مذہبی جماعت کا ایک رکن ہے۔

شنید ہے کچھ ارکان کی خریدو فروخت بھی ہوئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی ایک فرنٹ مین سے ہونے والی آڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک مسلم لیگی رکن کو رقم کی ادائیگی کا تذکرہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے۔ اس رکن نے پولنگ سے قبل ہی اپنی نشست سے استعفاٰ سپیکر چوہدری پرویز الہی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ کچھ ارکان نے رنر اپ کی پولنگ کے روز غیر حاضر رہنے کی قیمت وصول کر لی ہے۔ 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات میں سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے مہنگائی کے سامنے بند باندھنے کے لئے کئی اقدامات کیے ہیں لیکن ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے حکومت کا تازہ ترین اقدام پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا ہے۔

اس اقدام سے کسی حد تک عام آدمی کی ناراضی کی شدت میں کمی کی امید رکھی جا سکتی تھی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے۔ وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کے تمام اقدامات پر پانی پھر گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جیت مہنگائی واحد فیکٹر نہیں ہے۔ یہ کئی اور فیکٹرز کے علاوہ سب سے بڑا فیکٹر ہو سکتا ہے جس نے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو متاثر کیا ہے جن 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان حلقوں میں پہلے سے موجود مسلم لیگی امیدوار جنہیں نظر انداز کر کے پی ٹی آئی کے منحرفین کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دیا گیا ہے، نے اپنی پارٹی کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ کچھ حلقوں میں مسلم لیگی امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہو گئے کچھ نے اندرون خانہ چھرا گھونپا اور کچھ کھلم کھلا پی ٹی آئی کے امیدوار کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔

مسلم لیگ (ن) کا حامی ووٹر مہنگائی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نالاں ہے۔ اس صورت حال نے مسلم لیگ (ن) کے لئے 20 حلقوں کے ضمنی انتخاب کو خاصا مشکل بنا دیا تھا اگرچہ مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) 20 میں 18 نشستیں حاصل کر لے گی۔ در حقیقت انہیں بتا دیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر واضح طور پر جیت رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو 5 نشستیں ملیں گی البتہ مسلم لیگ (ن) 5 نشستوں پر کانٹے دار مقابلے میں نتائج اپنے حق میں کر سکتی ہے۔ کچھ نشستوں پر چند ووٹوں سے ہار جیت بارے میں بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو معلوم تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے پر مبارک باد کا مستحق ہے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت بوکھلاہٹ میں کبھی الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام عائد کر رہی ہے اور کبھی ووٹر لسٹوں میں ردو بدل کا شور شرابا کرتی نظر آ رہی تھی۔ شفاف انتخابات کرانے پر عمران خان کے منہ سے چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کے لئے کلمہ خیر نہیں نکلا۔

پنجاب میں بظاہر عمران خان اور مریم نواز کے درمیان مقابلہ تھا۔ مریم نے تنہا عمران خان کے بیانیہ کی یلغار کا مقابلہ کیا لیکن مسلم لیگ (ن) نے انتخابی معرکہ میں خطرے کی گھنٹی بجتے ہی سردار ایاز صادق، سردار اویس لغاری، خواجہ سلیمان رفیق اور ملک محمد اعوان وزارتوں سے استعفے دے کر دنگل میں کود پڑے تھے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے مسلم لیگ (ن) کی کشتی ڈوبنے کا انہیں احساس ہو گیا تھا۔ ہر قیمت پر انتخابی معرکہ سر کرنے کے لئے قد آور مسلم لیگی میدان جنگ میں کود گئے مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ چھین لی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کمی کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کمی کر کے لوگوں کو ریلیف دیا ہے۔ ان کا یہ اعلان اس وقت ہوا ہے جب 20 حلقوں میں دو روز بعد ضمنی انتخابات ہو رہے تھے۔

وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے 80 لاکھ کے لگ بھگ 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی دینے کا بڑا اعلان کیا لیکن الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات تک عمل درآمد سے روک دیا اسی طرح حکومت پنجاب نے سستا آٹے کی فراہمی کر کے غریب آدمی کی اشک شوئی کی لیکن عام آدمی نے موجودہ حکومت سے بہت کچھ کرنے کی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں جن کو موجودہ حکومت پورا نہیں کر سکی موجودہ حکومت کے لئے عام آدمی کو راضی کرنا مشکل ہو گیا پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عمران خان نے اپنی پونے چار سالہ کارکردگی پیش کرنے کی بجائے بازار سیاست میں امریکی سازش اور امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ خوب فروخت کیا اس بیانیہ نے بڑی حد تک مسلم لیگ (ن) کو پریشان کیے رکھا انتخابی نتائج سے تو ظاہر ہوتا ہے۔

عمران خان کے بیانیہ کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان کی واہ واہ ہو گئی ہے لیکن انتخابی نتائج سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والے 20 ارکان کی 5 نشستیں اس کے مخالفین نے جیت لی ہیں۔ اس لحاظ سے پی ٹی آئی کو 5 نشستوں کا نقصان ہوا ہے۔ مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری سابق حکومت پر ڈال کر عمران خان کے بیانیہ کی ہوا نکالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مسلم لیگ (ن) 17 جولائی 2022 ء کو پنجاب کے میدانوں بالخصوص لاہور جس مسلم لیگ (ن) کا شہر کہا جاتا ہے۔

لڑی جانے والی سیاسی لڑائی ہار گئی جس کی مسلم لیگ (ن) کو آئندہ انتخابات میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ عام تاثر تھا کہ مسلم لیگ (ن) ایک برانڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پنجاب میں کھمبے کو بھی کھڑا کرے تو بھی جیت جاتا ہے لیکن پنجاب کے اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ (ن) کا بھرم ختم کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں قبل وقت انتخابات کروا دیے جائیں تو پی ٹی آئی کامیاب ہو جائے گی۔

اس مقصد کے لئے عمران خان آئندہ ہفتہ عشرہ میں اسلام آباد کے لئے ایک اور لانگ مارچ کی کال دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کوئی انہونی نہ ہو جائے تو چوہدری پرویز الہی کے پنجاب کی وزارت اعلی کے امکانات روشن ہیں۔ شنید ہے حمزہ شہباز نے پی ٹی آئی کے 8، 10 ارکان صوبائی اسمبلی کے 22 جولائی 2022 ء کو رنر اپ کے موقع پر غیر حاضر رہنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات سے قبل ہی الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی تھی۔

ضمنی انتخابات کا نتیجہ اپنے حق میں عمران خان الیکشن کمیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہیں اور نیا الیکشن کمیشن بنانے کے لئے مسلسل دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ عمران خان موجودہ حکومت کے خاتمہ کے لئے تحریک چلا سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اسی طرح شہباز شریف کی حکومت گرا سکتے ہیں جس طرح ان کی حکومت گرائی گئی ہے البتہ اس کے لئے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بجائے صدر مملکت عارف علوی شہباز شریف کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ قبل از وقت انتخابات کرانے کی راہ ہموار کرنے کے لئے پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کروا سکتی ہے۔

انتخابی معرکہ میں پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کم نہیں ہوا لیکن اس کو شکست نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا دور ہو جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان صلح اور مفاہمت کا ما حول رہا ہو 25 جولائی 2018 ء کے متنازعہ انتخابات کو اپوزیشن نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن آصف علی زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھائے میاں نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے حق میں تھے اور نہ ہی وہ سوا سال کی حکومت کی عیاشی کو قبول کرنے کے لئے تیار تھے لیکن آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمنٰ اور شہباز شریف نے انہیں تحریک عدم اعتماد اور حکومت سازی پر آمادہ کیا بالآخر پارلیمنٹ سے عمران خان کو ووٹ آؤٹ تو کر دیا گیا لیکن ملک کی بگڑی معاشی صورت حال کو تا حال بہتری راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکا سپریم کورٹ کے تحریک عدم اعتماد بارے فیصلہ نے بھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، عمران خان سمیت دیگر کھلاڑیوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا راستہ کھول رکھا ہے۔ سر دست اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی لیکن پارلیمان میں عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6۔ کے تحت کارروائی شروع کرنے کے لئے قرارداد آ گئی ہے۔ سینیٹ میں افنان اللہ خان نے قرار داد جمع کرا دی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے عمران خان 11 اپریل 2022 ء کو اقتدار سے نکالے جانے سے زخم خوردہ ہیں اور اپنے مخالفین سے انتقام لینے کے لئے ڈائری میں نام لکھ رہے ہیں۔ انہیں اقتدار چھن جانے کا شدید غم ہے۔

اس لئے وہ مختلف قوتوں سے چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ ان کا طرز عمل مزید جارحانہ ہو گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے جس اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان کو معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد ہی ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ فی الحال ان کے سر پر آئین کے آرٹیکل 6۔ کی تلوار لٹک رہی ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کے ممکنہ فیصلے سے پی ٹی آئی کا پورا ڈھانچہ داؤ پر لگا ہے۔ بالآخر طیبہ گل انکوائری کیس کے ڈانڈے عمران خان اور ان کی ٹیم تک جا ملیں گے۔ توشہ خانہ کیس سے قیمتی اشیا کی بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کا کیس بھی تیار کھڑا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج سے سیاسی ماحول میں کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی۔ پنجاب میں پاؤں جمانے کے بعد عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جانب سے تخت اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت اور عمران خان کے درمیان تصادم کے نتیجے میں جو قوت سروائیو کرے گی۔ وہی اس ملک پر راج کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments