شہباز کمپنی دیوالیہ


شہباز شریف کی مصلحت پسندانہ سیاست ہار گئی اور عمران خان کا ایگریسو رویہ جیت گیا۔ شہباز شریف نے نیم حکیم خطرہ جان والے انداز میں حکومت چلانے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ شہباز شریف کا حد سے زیادہ ہمدردانہ اور نرم مزاج رویہ ان کی پنجاب میں حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگادیا جبکہ شہباز شریف نے وزیر اعظم بنتے ہی عمران خان اور ان کی جماعت کو کھلی چھوٹ دے دی۔

عمران خان نے بلا روک ٹوک حکومت اور اداروں پر تابڑ توڑ حملے بھی کیے اور ملک بھر میں جلسے بھی کیے جبکہ شہباز شریف صرف لاہور اور اسلام آباد کے چکر لگانے میں مصروف رہے۔ شہباز شریف کمپنی نے وزارتیں ملنے کے بعد سوچا چلو عمران خان سے جان چھوٹی اب مزے سے ڈیڑھ سال اقتدار انجوائے۔ لیکن شاید ان کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی۔ لاہور جیسے شہر سے مسلم لیگ (ن) کا تین سیٹیں ہارنا شہباز کمپنی کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

ایاز صادق اور پرویز ملک کی فیملی اپنے حلقوں کی سیٹیں بری طرح ہار گئے ہیں۔ پورے پنجاب میں جس طرح بھی دیکھیں شہباز کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہا جاتا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ شاید یہ وقت تب ہی تھا جب تک نواز شریف اوپر بیٹھے تھے اور شہباز شریف کا سکہ بھی تب ہی چلتا ہے جب تک اوپر نواز شریف بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف کا طرز حکومت، عمران خان کو ضرورت سے زیادہ ڈھیل اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کی عبرت ناک شکست اس کا واضح ثبوت ہے۔

میں متعدد بار ایک ہی بات کرچکا ہوں کہ نواز شریف عمران خان کی حکومت گرانے کے بالکل حق میں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے پاکستان میں کسی سویلین وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع مل سکے اور سب سے اہم بات عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے نواز شریف کی جماعت کو کوئی سیاسی نقصان نہیں ہو رہا تھا۔ مسلم لیگ نون پنجاب میں ہر ضمنی الیکشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن با آسانی جیت رہی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا تھا۔

پھر جیسے ہی شہباز کمپنی نے دیکھا کہ عوامی حمایت کا جھکاؤ ہماری طرح ہو رہا ہے یہ لوگ پھولے نہیں سمائے۔ پھر شہباز کمپنی کے سیاسی و غیر ملکی ونگ نے لندن کے مسلسل دورے کرنے شروع کر دیے۔ ہفتے میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جس دن شہباز کمپنی کا کوئی ممبر لندن یاترا پر نہ ہوتا۔ آخر نواز شریف کو شہباز شریف کی ضد کے سامنے خود کو زیر کرنا پڑا۔ انہوں نے شہباز شریف کو عمران خان کی حکومت گرانے کی اجازت دے دی۔ آج یقینی طور پر شہباز شریف اور ان کی کمپنی سوچ رہے ہوں گے کہ ایک غلط فیصلے نے نواز شریف کی زندگی بھر کی کمائی عزت کیسے داؤ پر لگادی ہے۔

اب شہباز شریف کے پاس 14 ماہ باقی ہیں ان کو اپنی مصلحت پسندی کی سیاست کو دفن کرنا ہو گا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن نے بھی اپنے نظریاتی امیدواروں کی جگہ لوٹوں کو ترجیح دینے کے پارٹی فیصلے کو مسترد کر دیا۔ جب لیڈرشپ زبردستی اپنے فیصلے کارکنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے جو پنجاب کی بیس سیٹوں پر نکلا ہے۔ شہباز شریف کو مل کر بیٹھ کر سیاست کرنے والا بیانیہ بھی دفن کرنا ہو گا۔ اگر دوسری طرف سے ایگریسو سیاست ہو رہی تو بار بار مصلحت پسندی کا پرچار کرنا بھی بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ہماری قوم نیم حکیم سیاست کی بجائے دبنگ اور جوش و جذبے والی سیاست ہی قبول کرتے ہیں۔

دوسری اہم بات میاں نواز شریف شہباز شریف سے فوری پارٹی صدارت واپس لیں اور ان کی جگہ مریم نواز یا شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کا صدر بنائیں۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کے موجودہ مرکزی سطح کے تنظیمی ڈھانچے کو تین سال مکمل ہو رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کا الیکشن کمیشن میں بھی پارٹی انتخابات کی تفصیل جمع کرانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ میاں نواز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ اب پاکستان واپس آئیں عدالتوں کا سامنا کریں اور اپنی جماعت کو مزید کسی بڑے سانحے سے بچائیں۔ ورنہ ایسا نہ ہوکے مسلم لیگ (ن) ہاتھ ملتی رہ جائے اور سیاسی منظر نامہ مزید تبدیل ہو جائے اور سب سے اہم بات وقت مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments