عید کی خوشیاں دوسروں کے سنگ


عید قرباں آئی اور چلی گئی آج اس کا تیسرا روز تھا لیکن ابھی تک قربانی کے قصے سنائی دے رہے تھی۔
اب کے مہنگائی کے وجہ سے گائے کے بجائے بکرے کی کیا قربانی کردی ہر طرف سے طعنوں کی بھرمار ہو گئی۔

” ارے نیلم کیا معلوم نہیں تھا کہ گائے میں بھی حصہ لینا تھا برسوں سے عید کے دوسرے دن بچے باربی کیو کرتے ہیں ایک یہ ہی تو بے فکری کا دن ہوتا ہے جب بے فکری کے ساتھ سب بچے سیخ کباب تکے بنا کر کھاتے ہیں ورنہ تو پورا سال گزر جاتا ہے ناپ تول کر گوشت کھاتے ہوئے“ ۔

اس کی بڑی نند نے شکایت نامہ سنایا تو وہ چپ کی چپ رہ گئی۔
” ہاں ممانی جان اب کے سیخ کباب کم پڑ گئے تھے“ ۔
ان کی بیٹی بھی بول اٹھی تو وہ غصے میں آ گئی۔
” حرا گوشت تو بانٹنے کے لئے ہوتا ہے ناکہ ان سب پارٹیز کے لئے“ ۔

بس اس کے بولنے کی دیر تھی کہ سب کے منہ بن گئے، راشد بھی ان کے ساتھ مل گئے، نیلم تو حیران و ششدر تھی ان سب کے رویوں پر ٹی وی کھول کے دیکھو تو لوگ روتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکے، انہوں نے عید کے دن بھی دال روٹی کھائی اور یہاں باربی کیو نہیں ہونے کا غم منایا جا رہا ہے۔

” چلیں اب ناراض نہیں ہو انشاء اللہ میں تانیہ کے جانے سے پہلے آپ سب لوگوں کی اچھی سی دعوت کروں گی اور آئندہ خیال رکھوں گی کہ گائے کا حصہ لینا نا بھولوں“ ۔

اس نے ہنس کر سب کے موڈ خوشگوار کرنے کے لئے کہا، تھوڑی دیر میں ماحول نارمل ہو گیا، کافی رات ہو چکی تھی اس نے راشد سے چلنے کے لئے کہا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے گھر والوں کے ساتھ تو ان کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا ورنہ گھر پر تو دس بجے تک سونے کی تیاری ہو چکی ہوتی تھی، وہ دل ہی دل میں کڑھتی ہوئی گاڑی میں آ بیٹھی راشد نے گاڑی اسٹارٹ کرنا چاہی تو ایک دم نیلم نے کہا۔

” راشد ذرا رکیں یہ دیکھیں کچھ بچے کونے پر کھڑے ہیں کیوں؟
اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

راشد گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گئے ہیڈ لائیٹ کی روشنیوں میں وہ مرجھائے ہوئے پھول کی مانند بچے ڈرے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، ان کے ہاتھ میں پکڑے شاپر گر گئے، ساتھ ہی ان کے ساتھ آپا بی کا نوکر ساجد کھڑا دکھائی دیا۔

” یہ کیا کر رہے ہو؟ وہ بھی اس وقت“ ۔
راشد نے حیرانی سے پوچھا تو وہ سر جھکا کے رہ گیا۔
” میں کیا پوچھ رہا ہوں تم کو سنائی نہیں دے رہا“ ۔
وہ غصہ ہو گئے۔

” راشد بھائی میں دن میں دیتا تو سب کو دکھائی دے جاتا اور آپا بی یہ ہی سمجھتیں کہ میں ان کے ڈیپ فریزر سے نکال کر دے رہا ہوں اس لئے میں چھپ کر اس وقت یہ قربانی کا گوشت ان کے لئے لایا ہوں تاکہ یہ بھی اپنے گھروں میں یہ پکا سکیں“ ۔

ساجد نے ڈرتے ہوئے کہا، وہ آپا بی کے گھر بہت عرصے سے کام کر رہا تھا۔
” آخر یہ اتنا گوشت تم کہاں سے لائے؟“
نیلم نے حیرت اور خوشی سے اسے دیکھا۔

” وہ جی آپ کو تو پتا ہے میرا گھر یہاں نہیں ہے تو جتنے بنگلے والوں نے مجھے میرے حصے کا دیا اور آپا بی نے بھی تو میں وہ ہی پیکٹ بنا کر ان کو دے رہا ہوں، میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں جو دوسری جگہ کام کرتے ہیں انہیں میرے ارادے کا پتا چلا تو انہوں نے بھی اپنے حصے کا گوشت مجھے لاکر دیا تاکہ میں ان میں بانٹ سکوں“ ۔

ساجد نے بتایا تو نیلم اور راشد اسے رشک سے دیکھنے لگے جو نوکر تھا لیکن دل کا امیر تھا اور اس کا عزم کس قدر عظیم اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے والا تھا، اس کو بھی ایک ہفتے بعد گاؤں جانا تھا چاہتا تو گوشت فریز کر سکتا تھا لیکن اس نے دوسروں کا خیال کیا جو شاید پورا سال بھی گوشت نا کھا سکتے ہوں گے اور ہم لوگ صرف دو کلو گوشت کم ہونے پر جھگڑ رہے تھے۔

نیلم اور راشد نے ایک دوسرے سے آنکھیں چرائیں اور پھر ساجد کو کہا۔
” اس کارخیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں تم ان بچوں کو یہیں روکو میں ابھی واپس آتا ہوں“ ۔
راشد نے کہا دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔

گھر آ کر نیلم نے ڈیپ فریزر میں جتنا گوشت رکھا تھا وہ نکال کر راشد کو دے دیا تاکہ وہ ان کو تقسیم کرسکے۔

عید کا تیسرا دن تھا اور ختم ہونے والا تھا لیکن اسے لگ رہا تھا جیسے آج ہی قربانی کی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments