میری لڑکیوں سے لڑائی ہے


لڑکیاں خدا کی عجب مخلوق ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، جس کی پشت پناہ یہ مخلوق ہوتی ہے وہ زندگی کے میدان میں ہار سے دو چار ہونے کی بجائے پھولوں کے ہار کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب جب یہ مخلوق کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے وہ بچارا پھر ہاتھ دھونے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

مگر میری تئیں معاملہ بالکل جدا نوعیت کا ہے۔ میرے پیچھے تو یہ طلسماتی مخلوق بغیر ہاتھ دھوئے ہی پڑ گئی ہے اور ایسی پڑی ہے کہ ہاتھ دھونا تو درکنار میں پانی کے نام تک سے لاتعلق سا ہو گیا ہوں۔ بات تو سحر انگیز اور حیرت کی ہے مگر شاید میرے تئیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک اس حیرت اور سحر انگیزی کی کچھ اہمیت نہ ہو۔ ممکن ہے کیونکہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے۔

میں ایک تیسرے درجے کا عام اور گمنام لکھاری ہوں مگر چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں شرکت کرنا اور اپنا نام باقیوں سے جدا کرنے کی کوشش کرنا لت کی حد تک میری عادت ہے۔ مقابلہ میں شرکت اس وجہ سے نہیں کی جاتی کہ جیت کر انعام اور داد پائیں گے بلکہ اس غرض سے کی جاتی ہے کہ دوڑ میں شریک ہو کر قلبی تسکین حاصل ہوگی۔ میرا اصول بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ میں مقابلہ میں شرکت اس غرض سے نہیں کرتا کہ جیت کے ہار کو ماتھے کا جھومر اور سینے کی شان بنا سکوں بلکہ صرف ذہنی اور قلبی سکون کی خاطر۔

بطور یونیورسٹی کے طالب علم مقابلہ مضمون نویسی میں میری شرکت تب ہوئی جب جی سی یونیورسٹی لاہور نے تمام یونیورسٹیز سوسائٹیز کے سمٹ کا انعقاد کیا۔ اس مقابلہ میں میری تیسری پوزیشن رہی، جبکہ پہلا انعام جی سی یونیورسٹی لاہور کی لڑکی کے نام ہوا۔ مجھے تیسرے انعام کو اپنے نام کرنے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی اس بات کی کہ پہلی سیڑھی پر قدم جمانے والے کا تعلق صنف آہن سے ہے۔

دوسری مرتبہ میں نے اس مقابلہ، جو یو ای ٹی (UET) نے منعقد کروایا تھا، میں بطور سو لفظی کہانی کے لکھاری شرکت کی۔ خوش قسمتی سے دوسرا درجہ میرے نام ہوا اور پہلی منزل کو سر کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجانے کا اعزاز یوواس (UVAS) کی صنف نازک کو حاصل رہا۔ مجھے دوہری خوشی ہوئی۔ ایک اس بات کی کہ میں خود میں کچھ بہتری لانے میں کامیاب رہا اور دوسری اس بات کی کہ جدید نسل کی لڑکی کے قلم میں طاقت تو ہے۔ ساتھ ہی کہیں نہ کہیں اداسی کی ہلکی سی لہر بھی سر اٹھانے لگی کہ دوسری مرتبہ بھی لڑکی سے ہارا۔

تیسری مرتبہ راقم نے اس قومی سطح کے مقابلے میں شرکت کی جو قائد اعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے تحریک نفاذ اردو نے منعقد کروایا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ اچھا اور معیاری مضمون لکھ سکوں اور اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ نتائج کا اعلان ہوا اور دوسرا استھان میرے نام ہوا اور مقابلہ کے میدان میں پہلا انعام حاصل کرتے ہوئے ایک لڑکی نے میرے طوطے اڑا دیے۔ نتائج دیکھتے ہی میرے منہ سے اچانک نکلنے والا لفظ تھا ”پھر لڑکی!“ اب کی بار اداسی کی ہلکی سی لہر غصہ کے تلاطم سے غم میں تبدیل ہوتی گئی۔

ایک دور تھا جب لڑکی گھر کی چوکھٹ پر کسی ناکام خواہش کی تکمیل کی خاطر دم سادھے گھٹ گھٹ کر ازلی دشمن موت کے ہاتھوں شکار ہو کر ابدی منزل قبر میں جا پہنچتی، اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ مگر اب وہ دور ہے جب صنف نازک کے پر کھول کر انہیں آزادی کا پروانہ دیا جا چکا ہے اور وہ ہر میدان میں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ صنف کرخت سے کسی بھی صورت کم نہیں۔ مگر ایک پہلو!

چوتھی بار میں نے قومی سطح کے اس مقابلے میں شرکت کرنے کی خاطر جو KWSSIP کے زیر اہتمام پانی کی اہمیت کے پیش نظر منعقد کروایا جا رہا تھا، خود کو تحقیق کی گھٹی دی اور پروں کو لفظی رعنائی کی مالش سے پر سکون کیا اور پرواز کے قابل بنایا۔ پرواز کو بلندیوں سے آشنا کرنے کی خاطر جملہ سازی کا ایندھن استعمال کرتے ہوئے محو پرواز ہوا۔ جب اڑان بھر چکا تو اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ پہلی تین منازل سے کوئی ایک منزل سر کرنے میں کامیاب رہوں گا۔

نتائج کا اعلان کیا گیا۔ نتیجہ دیکھتے ہی غصہ چہرے پر لال پیلا ہوتا گیا اور دل میں جنگ کی ترنگ پروان چڑھنے لگی۔ خود تو جناب دوسری منزل کے پاسبان تھے مگر پہلی منزل کے چوکھٹ پر بیٹھنے والے کا تعلق عورت ذات تھا۔ قومی سطح کی کامیابی پر جتنی خوشی تھی اس سے زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ ہر بار ہی لڑکی ہاتھ کر جاتی ہے۔

میری لڑکیوں سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں انہیں کسی سے کم تصور کرتا ہوں۔ بلکہ میرے لیے یہ باعث فخر ہے کہ ہمارے دور کی عورت اس قابل ہو گئی ہے کہ کسی بھی مقام پر اپنی اہلیت کے جوہر دکھا کر اعلیٰ مقام حاصل کرسکے۔ اس کے باوجود دل سے کہیں نہ کہیں سے یہ آواز بھی بلند ہوتی ہے کہ ہر بار لڑکی۔ لڑکی!

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments